عالمی ادارے کے مطابق تھرپارکر اور اس کے قریبی اضلاع کے تقریباً 13 لاکھ لوگوں میں غذائی قلت کو پورا کرنے کے لیے ایک سالہ منصوبے کے لیے ایک کروڑ 17 لاکھ ڈالرز کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد —
اقوام متحدہ اور اس کے دیگر شراکت دار امدادی ادارے پاکستان کے صحرائے تھر میں غذائی قلت سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تقریباً ایک کروڑ 17 لاکھ ڈالرز کی معاونت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔
سرکاری میڈیا کے مطابق یہ رقم تھرپارکر اور اس کے قریبی اضلاع کے تقریباً 13 لاکھ لوگوں میں غذائی قلت کو پورا کرنے کے لیے ایک سالہ منصوبے کے لیے ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘، عالمی ادارہ صحت، عالمی ادارہ خوراک، خوراک و زراعت کے عالمی اداے اور مختلف غیر سرکاری تنظیمیں تھر میں پہلے ہی سے کام کرتی چلی آرہی ہیں۔
لیکن حالیہ مہینوں میں تھر میں غذائی قلت اور اس سے ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث بچوں سمیت 150 سے زائد اموات کے بعد انھوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
تھرپاکر میں حالیہ برسوں میں معمول سے کم بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں خشک سالی نے علاقے میں قحط سالی کو جنم دیا۔ ان صحرائی لوگوں کی گزر اوقات کا ایک بڑا ذریعہ مال مویشی ہیں جو کہ خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اب تک یہاں سینکڑوں جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک کے ایک ترجمان امجد جمال نے جمعہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ تھرپارکر کی صورتحال اپنی جگہ ایک حساس امر ہے لیکن اس سے ملحقہ دیگر اضلاع میں بھی غذائی قلت کی شرح تشویشناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔
’’ہم ایک پالیسی کے تحت کام کر رہے ہیں کہ حکومت کے ساتھ ملیں اور ان علاقوں کو بھی ذہن میں رکھیں جن میں عمر کوٹ ہے، سانگھڑ ہے تو ان کو بھی ہم نے کور کرنا ہے تاکہ تھرپاکر جیسی صورتحال ان علاقوں میں پیدا نہ ہو۔’’
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کے ساتھ مل کر غذائی قلت سے نمٹنے کے پروگرام کو تھرپارکر کی تمام یونین کونسلوں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ تھرپارکر میں غذائی قلت کی شرح 17.5 فیصد سامنے آئی جب کہ اس سے ملحقہ ضلع عمر کوٹ میں یہ شرح کہیں زیادہ یعنی 25 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
’’ان ساری علامات اور اعدادو شمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے اسکریننگ شروع کردی ہے تاکہ وہ بچے اور خواتین جو غذائی کمی کا شکار ہیں ان میں اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو روکا جاسکے۔‘‘
اقوام متحدہ اور اس سے منسلک دیگر امدادی ادارے 2010 سے سندھ میں سترہ لاکھ بچوں، لگ بھگ آٹھ لاکھ حاملہ اور غذائی کمی کی شکار خواتین کے لیے خوراک اور صحت کے شعبوں میں معاونت فراہم کرتے آ رہے ہیں۔
سندھ کے ضلع تھرپارکر میں رواں ماہ صورتحال سنگین ہونے کے بعد وہاں وفاقی و صوبائی حکومت نے اپنی امدادی سرگرمیاں تیز کر دی تھیں جن میں پاکستانی فوج اور بعض غیر سرکاری تنظیمیں بھی ہاتھ بٹا رہی ہیں۔
صوبہ سندھ کی حکومت یہ اعتراف کر چکی ہے کہ علاقے میں اناج کی تقسیم کے معاملے میں حکام سے کوتاہی ہوئی جس سے صورتحال مزید ابتری کا شکار ہوئی۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بھی تھرپارکر میں ہونے والی اموات کا از خود نوٹس لے رکھا ہے اور اس بارے میں صوبائی عہدیداروں اور اعلیٰ حکام کی باز پرس کی جارہی ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق یہ رقم تھرپارکر اور اس کے قریبی اضلاع کے تقریباً 13 لاکھ لوگوں میں غذائی قلت کو پورا کرنے کے لیے ایک سالہ منصوبے کے لیے ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘، عالمی ادارہ صحت، عالمی ادارہ خوراک، خوراک و زراعت کے عالمی اداے اور مختلف غیر سرکاری تنظیمیں تھر میں پہلے ہی سے کام کرتی چلی آرہی ہیں۔
لیکن حالیہ مہینوں میں تھر میں غذائی قلت اور اس سے ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث بچوں سمیت 150 سے زائد اموات کے بعد انھوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
تھرپاکر میں حالیہ برسوں میں معمول سے کم بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں خشک سالی نے علاقے میں قحط سالی کو جنم دیا۔ ان صحرائی لوگوں کی گزر اوقات کا ایک بڑا ذریعہ مال مویشی ہیں جو کہ خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اب تک یہاں سینکڑوں جانور ہلاک ہو چکے ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک کے ایک ترجمان امجد جمال نے جمعہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ تھرپارکر کی صورتحال اپنی جگہ ایک حساس امر ہے لیکن اس سے ملحقہ دیگر اضلاع میں بھی غذائی قلت کی شرح تشویشناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔
’’ہم ایک پالیسی کے تحت کام کر رہے ہیں کہ حکومت کے ساتھ ملیں اور ان علاقوں کو بھی ذہن میں رکھیں جن میں عمر کوٹ ہے، سانگھڑ ہے تو ان کو بھی ہم نے کور کرنا ہے تاکہ تھرپاکر جیسی صورتحال ان علاقوں میں پیدا نہ ہو۔’’
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کے ساتھ مل کر غذائی قلت سے نمٹنے کے پروگرام کو تھرپارکر کی تمام یونین کونسلوں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ تھرپارکر میں غذائی قلت کی شرح 17.5 فیصد سامنے آئی جب کہ اس سے ملحقہ ضلع عمر کوٹ میں یہ شرح کہیں زیادہ یعنی 25 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
’’ان ساری علامات اور اعدادو شمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے اسکریننگ شروع کردی ہے تاکہ وہ بچے اور خواتین جو غذائی کمی کا شکار ہیں ان میں اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو روکا جاسکے۔‘‘
اقوام متحدہ اور اس سے منسلک دیگر امدادی ادارے 2010 سے سندھ میں سترہ لاکھ بچوں، لگ بھگ آٹھ لاکھ حاملہ اور غذائی کمی کی شکار خواتین کے لیے خوراک اور صحت کے شعبوں میں معاونت فراہم کرتے آ رہے ہیں۔
سندھ کے ضلع تھرپارکر میں رواں ماہ صورتحال سنگین ہونے کے بعد وہاں وفاقی و صوبائی حکومت نے اپنی امدادی سرگرمیاں تیز کر دی تھیں جن میں پاکستانی فوج اور بعض غیر سرکاری تنظیمیں بھی ہاتھ بٹا رہی ہیں۔
صوبہ سندھ کی حکومت یہ اعتراف کر چکی ہے کہ علاقے میں اناج کی تقسیم کے معاملے میں حکام سے کوتاہی ہوئی جس سے صورتحال مزید ابتری کا شکار ہوئی۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بھی تھرپارکر میں ہونے والی اموات کا از خود نوٹس لے رکھا ہے اور اس بارے میں صوبائی عہدیداروں اور اعلیٰ حکام کی باز پرس کی جارہی ہے۔