شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد نے حلب شہر پر چھ ہفتے کے لیے فضائی بمباری روکنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ وہ (خصوصی نمائندے) بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر تقریباً چار سالہ بحران کے سیاسی حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔
منگل کو سلامتی کونسل کے ساتھ ایک غیر سرکاری ملاقات کے بعد استفاں ڈی مستیورا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ جلد ہی دمشق اور اُمید ہے حلب جائیں گے تاکہ فضائی کارروائیوں کو معطل کرنے کی تاریخ کا اعلان کیا جا سکے۔
ڈی مستیورا نے کہا کہ وہ حزب مخالف کے گروپوں سے بھی اس طرح کے معاہدے پر رضامندی حاصل کریں گے کہ وہ بھی چھ ہفتے کے عرصے کے دوران حلب پر اپنے راکٹ اور مارٹر حملے معطل کر دیں گے۔
خصوصی نمائندے نے کہا کہ وہ ایک شہر (حلب ) میں (کارروائی) کی نام نہاد "معطلی" کی منصوبہ بندی کی تیاری کے لیے ایک ٹیم بھیجیں گے جس کے بارے میں وہ اکتوبر سے تمام فریقوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ کامیابی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔
ڈی مستیورا نے کہا کہ "ہمیں صاف گوئی سے کام لینا ہو گا کہ مجھے اس کے بارے میں کوئی مغالطہ نہیں ہے۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس مقصد کا حصول ایک مشکل معاملہ ہو گا۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ شام کے عام شہریوں کو محفوظ رکھنا ایک فرض ہے جبکہ اس کا سیاسی حل ڈھونڈا جا رہا ہے۔
حلب شہر کسی دور میں شام کا تیزی سے فروغ پاتا تجارتی دارالحکومت تھا لیکن جنگ کے دوران وہ تباہ ہو گیا ہے اور اب یہ شہر تقسیم ہو کر حکومت اور حزب مخالف کے قبضے میں ہے۔
مستیورا کا کہنا ہے کہ وہ "لفظوں (کے استعمال) میں محتاط ہیں" اور صرف یقین دہانی ہی کافی نہیں ہو گی۔ زمینی حقائق بتائیں گے کہ کیا (لڑائی کی) معطلی برقرار رہے گی اور اس کو دوسرے علاقوں تک بڑھایا جا سکتا ہے۔"
شامی قومی اتحاد کے اقوام متحدہ میں نمائندے نجیب غدبیان نے کہا کہ وہ خصوصی نمائندے کی طرف سے ایک تفصیلی تجویز کا انتظار کر رہے ہیں جس کا حزب مخالف احتیاط سے جائزہ لے گی۔
سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں شام کے سفیر نے اس تجویز پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
آئندہ ماہ شام کا بحران پانچویں سال میں داخل ہو جائے گا جس میں اب تک 200,000عام شہری ہلاک جبکہ لاکھوں ملک کے اندر نقل مکانی اور ہمسایہ ملکوں میں فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔