اقوامِ متحدہ نے میانمار میں جاری پُر امن احتجاجی مظاہروں میں شریک خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ حوالات میں قید خواتین کو جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔
خواتین کے حقوق کی تنظیم 'یو این ویمن' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فومزائل میلبو اینگکو کا کہنا ہے کہ میانمار کی تاریخ میں خواتین نے طویل عرصے سے اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کو اپنے خیالات کے پُر امن اظہار کی وجہ سے حملوں اور سزا کا شکار نہیں بنانا چاہیے۔
میانمار میں معزول جمہوری حکومت کے حق میں کیے جانے والے احتجاج میں عالمی ادارے کے مطابق چھ خواتین ہلاک ہو چکی ہیں۔ جب کہ نوجوان خواتین اور سول سوسائٹی کے سرگرم اراکین سمیت 600 سے زائد خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد ملک میں جاری مظاہروں کے دوران اب تک 70 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ جب کہ کئی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں میانمار کی منتخب حکومت کی رہنما آنگ سان سوچی اور صدر ون مائنٹ بھی شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اتوار کو دارالحکومت ینگون کے قریب باگو نامی ٹاؤن میں پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ اس کے علاوہ مظاہروں میں ایک اور شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ وائس آف امریکہ کی برما سروس کے مطابق اتوار کے روز دارالحکومت کے قریب ہلینگ تھریار قصبہ میں تین اور مظاہریں مار دیے گئے۔ عینی شاہدین اور رائٹرز خبر رساں ادارے نے بھی اس تشدد کی رپورٹ دی۔ یوں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد چار ہو گئی۔
اس سے قبل ہفتے کی شام سیکڑوں افراد نے ینگون شہر میں ایک پر امن احتجاج میں شرکت کی۔ جہاں لوگوں نے فوجی آمر حکومت کی طرف سے عائد کردہ آٹھ بجے سے کرفیو کی پابندی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شمعیں روشن کرتے ہوئے شرکت کی۔
خیال رہے کہ امریکہ نے برما کی فوج کے خلاف پابندیوں کا اعلان کر رکھا ہے اور اس ہفتے کمانڈر ان چیف من آنگ ہلینگ کے دو بالغ بچوں کے خلاف بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔
امریکہ نے معزول رہنما آنگ سان سو چی، صدر مائنٹ اور حراست میں لیے گئے انسانی حقوق کے علم بردار مظاہرین اور صحافیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔