یمن میں اقوامِ متحدہ کی رابطہ کار نے کہا ہے کہ امدادی فنڈز اب ختم ہونے والے ہیں اور اٹھارہ ماہ بعد یمن ایک بار پھر بھوک اور قحط سالی کا شکار ہونے والا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اقوامِ متحدہ کی رابطہ کار لز گرینڈ کا کہنا ہے کہ یمن کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہے، اور اب یہاں کرونا وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ لاکھوں خاندانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ بچے پہلے ہی بھوک سے مر رہے ہیں۔
جون میں امداد دینے والے ملکوں کی کانفرنس میں دو اعشاریہ چار ایک ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن اقوامِ متحدہ کو بمشکل آدھی رقم وصول ہوئی ہے۔
خانہ جنگی کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں اور ملک کی اسی فی صد آبادی، یعنی تقریباً دو کروڑ نوے لاکھ لوگوں کا انحصار امداد پر ہے۔
دارالحکومت صنعا سے انٹرویو دیتے ہوئے مز گرینڈ نے کہا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے نکاسی آب، ہیلتھ کیئر اور خوراک کی فراہمی کے مراکز پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔ اور مزید کمی ایک نئے انسانی بحران کو جنم دے رہی ہے۔
ان کے بقول ملک میں ایندھن بھی ناپید ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بجلی، پانی کی فراہمی اور ہسپتال جیسی اہم سہولتیں بند ہو رہی ہیں۔ جہازوں کو زندگی بچانے والی اشیا لانے نہیں دیا جا رہا ہے۔ مرکزی بینک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران بنیادی خوراک کی اشیا کے نرخوں میں تیس فی صد اضافہ ہوا ہے۔
گرینڈ کا کہنا ہے کہ یہ سارے حالات ایسے ہیں جو ملک کو قحط سالی کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ ہم پہلے بھی یہ سب کچھ دیکھ چکے ہیں اور اگر ہمارے پاس وسائل نہیں ہوں گے تو پھر ویسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اکتیس ملکوں میں سے نو ملکوں نے فنڈز فراہم کیے۔کرونا وائرس کی وجہ سے عالمگیر سرد بازاری کی وجہ سے ہماری اس تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ ہمیں مطلوبہ فنڈز نہیں مل سکیں گے۔ ظاہر ہے ساری دنیا پر معاشی طور سے دباو میں ہے۔ اگر ماضی کی طرح ہوا تو یمن کے حالات انتہائی سنگین ہو جائیں گے۔
گرینڈ نے کہا کہ اگلے چند دنوں میں اقوام متحدہ کو ایک نازک اور ناقابل یقین صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پانی کی فراہمی ختم ہو جائے گی، پورے ملک کا نکاسی آب کا نظام رک جائے گا۔ ہسپتال بجلی سے محروم ہوں گے۔
اقوام متحدہ کی رابطہ کار لز گرینڈ نے کہا کہ اٹھارہ ماہ پہلے دنیا میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہم کو سب سے زیادہ امداد ملتی تھی۔ لیکن، اب یمن پھر اسی جگہ آگیا ہے جہاں ڈیڑھ برس پہلے تھا۔ فرق یہ ہے کہ اب ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں کہ ہم اس صورت حال سے کسی طور نمٹ سکیں۔