کچھ عرصہ پہلے جب سندھ کے کئی علاقوں میں ٹڈی دل کے اترنے اور فصلیں ، درخت اور سبزہ کھانے کی خبریں آنے لگیں تو یہ اطلاعات بھی آئیں کہ بعض علاقوں میں لوگ ٹڈیوں کو پکڑ کر انہیں کھا رہے ہیں۔ اس پر کچھ لوگوں کو اور حیرت ہوئی اورکچھ نے یہ کہتے ہوئے ماننے سے انکار کر دیا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔
شاید میں بھی انکار کرنے والوں میں شامل ہوتا اگر یہ مناظر میں نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے ہوتے۔ کئی عشرے پہلے ہمارے علاقوں میں ٹڈی دل کے حملے عام تھے۔ یہ ٹڈی دل عموماً افریقہ کے صحراؤں سے سفر شروع کرتے تھے اور ملکوں ملکوں فصلیں اجاڑتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ وہ سبزہ چٹ کرتے، اپنے انڈے پیچھے چھوڑتے ہوئے اگلی منزلوں کی جانب بڑھ جاتے تھے۔ ان پر بڑی مشکل اور حکمت سے قابو پایا گیا۔ اس زمانے میں ٹڈیاں پکڑ کر کھانا عام سی بات تھی۔
میں نے ٹڈیاں پکڑنے اور کھانے کا پہلا منظر اپنے بچپن میں ضلع میانوالی میں صحرائے تھل کے چھوٹے سے گاؤں میں دیکھا۔ سہ پہر کے وقت آسمان پر ایک جانب کالی گھٹا سی نظر آئی۔ گھٹا قریب آئی تو وہ لاکھوں ٹڈیوں میں بدل گئی جنہوں نے فصلوں، درختوںاور سبزے پر اتر کر پتوں کو کھانا شروع کردیا۔ کھانے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ کچھ ہی دیر میں پودے اور درخت پتوں سے خالی ہوکر ٹنڈمنڈ سے دکھائی دینے لگے۔ اسی دوران گاؤں سے کیا بڑے کیا چھوٹے، سب کنستر اور ڈبے اٹھائے نکل آئے اور ٹڈیوں کو پکڑ پکڑ کر ان میں بند کرنے لگے۔ اس شام میں نے انہیں سرسوں کے تیل میں تلنے کے بعد نمک مرچ چھڑک کر مزے لے کر کھائے جانے کا منظر بھی دیکھا۔ کئی سال بعد ایسا ہی نظارہ جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں میں دیکھنے کو ملا۔ اس بار ٹڈی دل چھوٹا تھا لیکن انہیں پکڑنے والے بہت پرجوش تھے۔ بہت سی ٹڈیاں پکڑ کے کھا لی گئیں اور باقیوں کو آنے والے دنوں کے لیے محفوظ کرلیا گیا۔ غالباً انہیں نمک لگاکر سکھا لیا جاتا تھا جس سے وہ کئی مہینوں تک کھانے کے قابل رہتی تھیں۔
بچپن میں سنا تھا کہ مچھلی اور ٹڈی، دو ایسی چیزیں ہیں جو حلال پیدا ہوئی ہیں۔ ان کے گلے پر چھری پھیرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر آنے والے برسوں میں پڑھا کہ بہت سے یہودی بھی ٹڈی کو کوشر کہتے ہیں اور اسے کھاتے ہیں۔ اسی طرح بائبل میں حضرت یحیی علیہ السلام کے حوالے سے ٹڈی اور شہد کا ذکر کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹڈیاں قبل از مسیح بھی خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں۔
ٹڈیاں صرف جنوبی ایشیا میں نہیں بلکہ اور خطوں میں بھی لوگوں کی خوراک کا حصہ ہیں۔ چین میں ٹڈیاں تکے کی طرح کوئلوں پر سیخوں میں پروئی ہوئی عام مل جاتی ہیں۔ چین میں تو خیر ہر طرح کا جانور کھالیا جاتا ہے لیکن جاپان کے ناکانو، فوکوشیما اور پہاڑی علاقوں کی ایک روایتی ڈش ’’ناگونوتسوکودانی‘‘ ہے جسے ٹڈیوں اور چاولوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس ڈش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بہت قوت بخش ہوتی ہے۔ جاپان کی طرح کوریا میں بھی ٹڈیاں چاولوں کے ساتھ کھائی جاتی ہیں۔
ٹڈی تھائی لینڈ کی مقبول غذا ہے جسے کئی طریقوں سے پکایا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ میں کئی کسان مکئی کی فصل بیچنے کے لیے نہیں بلکہ ٹڈیوں کے لیے کاشت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مکئی کی فصل پر پلنے والی ٹڈی خوب موٹی تازی ہو جاتی ہے اور کھانے میں مزے کی ہوتی ہے۔ تھائی لینڈ میں مرغیوں کی طرح ٹڈیوں کے فارم موجود ہیں جن کی ٹڈیاں مارکیٹ میں اچھے دام پاتی ہیں۔
ٹڈیاں آسڑیلیا اور امریکہ تک میں کھائی جاتی ہیں۔ امریکہ کے قدیم باشندے جو زیادہ تر ریاست یوٹاہ میں آباد ہیں، ٹڈیوں کو بہت شوق سے کھاتے ہیں اور ان کی مختلف ڈشیں بناتے ہیں۔ ان کی کہاوتوں میں ٹڈیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خشکی کا جھینگا ہیں۔ ٹڈیوں کے ڈشیں یورپ کے بعض ریستورانوں میں بھی مل جاتی ہیں جنہیں سنیک کے طور پر مختلف چٹنیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
ٹڈیاں صحرائی عربوں کی بھی خوراک ہیں۔ وہ انہیں اکثر ڈیپ فرائی کر کے کھاتے ہیں اور انہیں لمبے عرصے تک رکھنے کے لیے نمک لگا کر محفوظ کر لیتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ایران میں ٹڈیاں نہیں کھائی جاتیں۔ کیونکہ فارسی میں ایسی کہاوتیں ملتی ہیں جن میں عربوں کو ’’ ملخ خور‘‘یعنی ٹڈیاں کھانے والے کہہ کر تمسخر اڑایا گیا ہے۔ یا پھر ممکن ہے کہ اس طرح کی کہاوتوں کا پس منظر عرب اور عجم کی ثقافتوں کا تاریخی تصادم ہو۔
ٹڈیاں کھانے والوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت مزیدار اور لذیذ ہوتی ہیں۔ ایک بار منہ کو لگ جائیں تو چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔ جیسے پہلی بار جھینگوں پر نظر پڑتی ہیں تو عجیب سے لگتے ہیں لیکن جب زبان انہیں چھوتی ہے تو پھر ہاتھ رکتا نہیں۔
غذائیت کے ماہرین اور سائنس دان بھی ٹڈیوں کو مستقبل کی صحت بخش غذا کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے انسانی آبادی بڑھ رہی ہے، اس کی خوراک کی طلب ٹڈیاں ہی پوری کر سکتی ہیں کیونکہ ان کی افزائش کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک مادہ ایک وقت میں تقریباً 30 انڈے دیتی ہے جنہیں دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دو تین ہفتوں میں بچے نکل آتے ہیں اور تین چار ہفتوں میں بالغ ہو کر پکائے جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ ٹڈی کی شکل و شباہت پر نہ جائیں بلکہ یہ دیکھیں کہ اس میں غذائیت کتنی ہے۔ ٹڈیوں میں بڑی مقدار میں پروٹین، چکنائی، آئرن، کیلشیم، پوٹاشیم، زنک اور سوڈیم ہوتا ہے۔ ایک سو گرام ٹڈیوں میں پروٹین کی مقدار 28 گرام تک ہوتی ہے۔ اتنی مقدار اتنے وزن کے بیف میں بھی نہیں ملتی۔ اسی طرح سو گرام ٹڈیوں میں ساڑھے گیارہ گرام چکنائی ہوتی ہے جس میں کیلسٹرول کا لیول بھی کم ہوتا ہے۔ ٹڈیاں انسان کو وہ تمام ضروری غذائی اجزا وافر مقدار میں فراہم کرتی ہیں جس کی اچھی صحت کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ سائنس دانوں کے نزدیک ٹڈی ماحول دوست جاندار ہے۔ ان کی تعداد چاہے اربوں کھربوں ہو جائے، وہ انتہائی قلیل مقدار میں کاربن یا گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتی ہے۔ کاربن گیس کا اخراج اس وقت ہمارے کرہ ارض کا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ اس کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ بڑھ رہی ہے اور زمین پر حیات کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ ہماری خوراک میں استعمال ہونے والے بڑے جانور مثلاً گائے بھینس وغیرہ بڑے پیمانے پر کاربن گیسیں خارج کرتی ہیں اور سائنس دان ان کی تعداد گھٹانے پر زور دیتے ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ٹڈی سب سے محفوظ ہے۔
اور آخری بات، ٹڈی کھانے والوں کی عجیب نظروں سے دیکھ کر ان کا تمسخر نہ اڑائیں، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو مستقبل کا کام آج کر رہے ہیں۔