فلسطینیوں کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد فراہم کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یواین آر ڈبلیو اے کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں رہنے والوں کو اجتماعی سزا اور جبری نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق عالمی امدادی ادارے کے سربراہ جنرل فلپ لازارینی نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کو بتایا کہ انسانی بنیادوں پر فوری جنگ بندی لاکھوں افراد کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے حال اور مستقبل کا انحصار اسی پر ہے۔
اجتماعی سزا اور جبری نقل مکانی ، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔
لازارینی نے اردن کے دارالحکومت عمان سے ایک ویڈیو بریفنگ میں کونسل کو بتایا کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے حماس کےہولناک حملے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی افواج کی بے دریغ بمباری سے انہیں بہت دکھ ہواہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہاں بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ۔وہاں ہونے والا المیہ ناقابل برداشت ہے۔
انہوں نے بین الاقوامی انسانی قانون پر سختی سے عمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں امداد اور ایندھن کی بلا روک ٹوک اور مسلسل فراہمی اور عالمی ادارہ خوراک کے لیے مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے۔
حماس کا حملہ اور غزہ کی ناکہ بندی
7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر ایک بڑے حملے میں 1400 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور عسکریت پسندوں نے 230 سے زیادہ لوگوں کو یرغمال بھی بنا لیا تھا، جس کے ردعمل میں اسرائیل نے غزہ پر شدید بمباری کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی کی مکمل ناکہ بندی کر تے ہوئے وہاں پانی، خوراک، ایندھن اور بجلی کی ترسیل روک دی تھی۔
تاہم اب بین الاقوامی کوششوں سے غزہ کی پٹی میں محدود پیمانے پر انسانی ہمدردی کی امداد کی فراہمی شروع ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز 33 امدادی ٹرک مصر سے رفح بارڈر کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہوئے – یہ کسی ایک دن میں غزہ جانے والی امداد کی سب سے زیادہ مقدار تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران مجموعی طور پر 115 کے قریب امدادی سامان سے لدے ہوئے ٹرک غزہ کی پٹی میں جا چکے ہیں۔
SEE ALSO: اقوام متحدہ کے سربراہ کی فلسطینیوں کو دی جانےوالی اجتماعی سزا کی مذمتعالمی امدادی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ 20 لاکھ افراد کی ضرورتوں کے پیش نظر یہ امداد محض مٹھی بھر ہے، جس سے تباہ حال اور خوف زدہ فلسطینیوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے جس کا اظہار اتوار کو اس وقت ہوا جب لوگوں نے یواین آر ڈبلیو اے کے کئی گوداموں کو لوٹ لیا۔
غزہ میں امدادی ایجنسی کے تقریباـً 1300 فلسطینی اہل کار کام کر رہے ہیں۔ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل لازازینی نے بتایا کہ فضائی حملوں میں تین ہفتوں کے دوران 64 اہل کار ہلاک اور 22 زخمی ہو چکے ہیں۔
"ایک المناک واقعہ دو گھنٹے پہلے تھا،" انہوں نے کونسل کو بتایا۔ "وسطی علاقے میں سیکورٹی اینڈ سیفٹی کے سربراہ سمیر اپنی بیوی اور آٹھ بچوں کے ساتھ ہلاک ہوگئے۔"
انہوں نے کہا کہ اتنی کم مدت میں کسی تنازع میں ہلاک ہونے والے اقوام متحدہ کے امدادی کارکنوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ بچے بھی اس تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے کے سربراہ نے فلسطینی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ غزہ میں 3400 سے زائد بچے ہلاک اور 6300 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم اس تعداد کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
SEE ALSO: غزہ کی آبادی کو مصر کے صحرائے سینا منتقل کر دیا جائے؛ اسرائیلی وزارت کی تجویزانسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمعے کے روز انسانی بنیادوں پر جنگ بندی یا لڑائی میں وفقہ کرنےسے متعلق قرارداد پر بھاری اکثریت سے ووٹ دیا گیاتھا۔ لیکن جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر عمل درآمد کی کوئی قانونی پابند ی نہیں ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ حماس کے خلاف جنگ بند نہیں کرے گا۔
واشنگٹن کی ایلچی نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران کی صورت حال روز بروز سنگین تر ہوتی جا رہی ہے اور امریکہ اسرائیل، مصر اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے کہ مسلسل امداد ان لوگوں تک پہنچتی رہے جنہیں اس کی ضرورت ہے۔
سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ خوراک، ایندھن، پانی، ادویات اور دیگر ضروری خدمات کو بحال کیا جانا چاہیے۔ "اگرچہ غزہ میں داخل ہونے والے ٹرکوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، تاہم یہ کافی نہیں ہے۔ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل میں فوری طور پر اضافہ کیا جانا چاہئے۔ ہمیں جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کےکوآرڈینیٹر جان کربی نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ ہم اس امداد کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس وقت جنگ بندی کی حمایت نہیں کرتے۔