بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے آخری مرحلے میں چلائی جانے والی الیکشن مہم ہفتے کی شام ختم ہو گئی ہے۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہوئے ہیں ان میں اترپردیش (یو پی)، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوّا شامل ہیں۔ ان انتخابات میں سب کی نگاہیں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ہونے والے الیکشن پر ہیں۔
یو پی میں سات مرحلوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ آخری مرحلے کی پولنگ مشرقی اتر پردیش کے نو اضلاع میں سات مارچ کو ہوگی جن میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کا حلقۂ انتخاب وارانسی بھی شامل ہےجب کہ ووٹوں کی گنتی 10 مارچ کو ہو گی۔
بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم نریندر مودی، سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو اور کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے جمعے کو وارانسی میں انتخابی مہم چلائی۔
وزیرِ اعظم مودی وارانسی کی تمام نشستوں پر بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے تین دن سے وہاں موجود ہیں۔ اس دوران انھوں نے عوامی رابطہ مہم چلائی اور پارٹی کارکنوں سے ملاقاتیں بھی کیں۔
چھٹے مرحلے میں ہونے والی پولنگ میں ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حلقے گورکھ پور میں، جہاں ان کا مشہور گورکھ ناتھ مٹھ بھی ہے، ووٹ ڈالے گئے۔
مبصرین کے مطابق پہلے مرحلے سےلے کر آخری مرحلے تک بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھا گیا۔
یوپی کا الیکشن مغربی اتر پردیش سے شروع ہوا جہاں کسانوں کی تحریک کا زبردست اثر رہا۔ 50 سے زائد مقامات پر عوام نے اپنے گاؤں میں بی جے پی کے امیدواروں کو داخل نہیں ہونے دیا۔
اس الیکشن میں جو ایشوز حاوی رہے ان میں کسانوں کی تحریک، مہنگائی، بے روزگاری، کرونا وبا کے دوران حکومت کی مبینہ بد انتظامی، باہر گھومنے والے آوارہ مویشی، نظم و نسق کا مسئلہ اور خواتین کے خلاف جرائم قابل ذکر ہیں۔
مبصرین اور انتخابی حلقوں کا دورہ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن دو پارٹیوں بی جے پی اور سماج وادی کے درمیان رہا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ ایک عرصے سے یو پی کی یہ تاریخ رہی ہے کہ کوئی بھی پارٹی مسلسل دوسری بار برسراقتدار نہیں آئی ۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینئر تجزیہ کار یوگیش پانڈے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بڑے یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ریاست سے بی جے پی کا اقتدار ختم ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق عوام سماج وادی پارٹی کی محبت میں اس کی جانب مائل نہیں ہوئے بلکہ یوگی حکومت کی غلط پالیسیوں اور مختلف محاذوں پر ناکامی کی وجہ سے بی جے پی سے ناراض ہیں۔
ان کے مطابق مغربی یو پی میں کسانوں کی تحریک کا بڑا اثر پڑا۔ جوں جوں مہم مشرق کی جانب بڑھی، مزید ایشوز انتخابی مہم میں شامل ہوتے گئے۔ جیسے کہ وسطی اور مشرقی یوپی میں آوارہ مویشیوں کا مسئلہ بہت بڑا تھا۔
ان علاقوں کے کسان میڈیا سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ پانچ سال قبل ان علاقوں میں آوارہ مویشی نہیں تھے۔
ان کے مطابق پانچ سال قبل ہم لوگ نعرہ لگاتے تھے کہ گو کشی بند کرو اور ہم نے 2017 اور 2019 میں بی جے پی کو ووٹ دیا البتہ اس بار بی جے پی امیدواروں کو ہرانے والے امیدواروں کو ووٹ دے رہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں یوپی میں 11 لاکھ8 ہزار آوارہ مویشی تھے البتہ 31 جنوری 2022 تک ان میں سات لاکھ مویشیوں کا اضافہ ہوا۔
یوگیش پانڈے کے مطابق یہ مسئلہ بہت بڑا انتخابی ایشو بن گیا اور اس کی وجہ سے بھی بی جے پی کو نقصان ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی تیسرے مرحلے کے بعد ہر جلسے میں کہتے رہے کہ 10 مارچ کو بی جے پی کی حکومت دوبارہ بننے کے بعد سب سے پہلے اس مسئلے کو حل کیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاست کے عوام وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے کام کرنے کے طریقے سے خوش نہیں ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے صرف اپنی برادری کے لیے کام کیا۔ دوسری برادریوں کا کوئی کام نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پولیس کے محکمے کو پوری چھوٹ دے دی۔
یوگی نے اخبار 'ہندوستان ٹائمز 'کو ایک انٹرویو میں تھا کہ وہ اونچی ذات یعنی شتری ذات میں پیدا ہوئے ہیں اور اس پر ان کو فخر ہے اور اگر ان پر اپنی برادری کی فلاح و بہبود کے کام کا الزام لگتا ہے تو اس پر انھیں کوئی ندامت نہیں ہے۔ مبصرین کے مطابق ان کے اس بیان کا الٹا اثر پڑا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ریاست کا دورہ کرنے والے سینئر صحافی و تجزیہ کار رئیس احمد لالی کہتے ہیں کہ اس بار بی جے پی اپنے پرانے اور آزمودہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہی۔
ان کے مطابق بی جے پی ہر الیکشن میں ایک طرف ترقی یعنی ڈویلپمنٹ کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف مذہب کے نام پر ہندوؤں کے ایک طبقے کو متحد کرکے ان کے ووٹ لینے کی کوشش کرتی رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ا س بار بی جے پی کے یہ دونوں ایجنڈے ناکام رہے۔ مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ نے مغربی یوپی میں مہم کا آغاز کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقے کیرانہ سے ہندو تاجروں کی مبینہ ترک سکونت اور مظفر نگر فسادات کا ذکر کیا اور ہندوؤں کو مسلمانوں کا خوف دکھانے کی کوشش کی۔ لیکن اس کا عوام پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
انھوں نے کہا کہ اس الیکشن میں عوام کی مشکلات و مسائل کو اہمیت حاصل رہی۔ دیہی علاقوں میں آوارہ مویشیوں کے علاوہ بے روزگاری، کرونا وبا میں حکومت کی مبینہ بد انتظامی اور کم ہوتی سرکاری ملازمتوں کے مسائل چھائے رہے۔
ان کے مطابق شہری علاقوں میں ایک بڑا طبقہ سرکاری ملازمین کا ہے۔ حکومت نے کئی برس قبل ملازمین کی پینشن ختم کر دی ہے جس سے اس طبقے میں ناراضگی ہے۔جب کہ دوسری جانب اکھلیش یادو نے پینشن دوبارہ شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ مسئلہ گیم چینجر بن سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بی جے پی نے رام مندر کے نام پر ووٹ مانگا۔ پھر اعلان کیا گیا کہ متھرا میں شاہی عیدگاہ کی جگہ پر کرشن مندر بنے گا۔ کاشی وشوناتھ کاریڈور کا وزیرِ اعظم مودی نے افتتاح کیا۔ اس کے بعد پاکستان اور جناح کا نام لیا گیا۔ لیکن کسی بھی ایشو نے عوام کو بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے مائل نہیں کیا۔
ان کے مطابق اس کے بعد بی جے پی نے اپنی حکمتِ عملی بدلی اور ریاست کی سابقہ سماج وادی پارٹی کے دورِ حکومت میں نظم و نسق کی مبینہ ناکامی کو ایشو بنانے کی کوشش کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ سماج وادی پارٹی کی حکومت بنے گی تو دہشت گردی بڑھے گی۔
یوگیش پانڈے کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی نے احمد آباد بم دھماکوں کے معاملے میں عدالتی فیصلے کو، جس میں 38 ملزموں کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا، کیش کرانے کی کوشش کی اور کہا کہ پہلے جو دھماکے ہوتے تھے وہ سائیکلوں پر رکھے بموں سے ہوتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ دہشت گرد سائیکل کو ہی کیوں پسند کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ سائیکل سماج وادی پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یوگیش پانڈے کے مطابق وزیرِ اعظم نے اس طرح سماج وادی کو دہشت گردی پر نرم رویہ اپنانے والی پارٹی ہونے کا الزام لگایا لیکن ان کے بقول عوام نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
رئیس احمد لالی کے مطابق ہندوؤں میں اپنے مذہب کے تحت عقیدت ہے اور وہ بی جے پی کے مذہبی ایجنڈے کو پسند بھی کرتے ہیں البتہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ یہ تو چاہیے ہی، لیکن پیٹ بھرنے کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔ روزگار بھی ملنا چاہیے اور جرائم سے پاک معاشرہ بھی ہونا چاہیے۔
یوگیش پانڈے کے مطابق بی جے پی رام مندر تحریک کے سہارے یہاں تک پہنچی ہے البتہ اس بار ایودھیا میں بھی جہاں کہ رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے، اس ایشو کا کوئی اثر نہیں رہا۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ رام مندر کا فیصلہ تو عدالت نے کیا ہے، بی جے پی اس کا کریڈٹ کیوں لے رہی ہے۔
رئیس احمد لالی کہتے ہیں کہ ایودھیا اور متھرا کے باشندوں سے جب انھوں نے بات کی تو اندازہ ہوا کہ اب عوام بی جے پی اور مذہبی عقیدے کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ رام مندر کے آس پاس کے دکاندراوں نے بی جے پی کی بعض پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔
مبصرین کے مطابق ایودھیا میں بی جے پی کے خیمے میں کوئی جوش خروش نہیں تھا۔ بہت سے ایسے لوگ جنھوں نے اس سے پہلے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا ، نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس بار انھوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
بی جے پی کے رہنما اس قسم کی باتوں کی تردید کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سب حزبِ اختلاف کا پروپیگنڈا ہے۔
امت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ، نائب وزیرِ اعلیٰ کیشو پرساد موریہ اور راج ناتھ سنگھ جیسے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی کو اس بار بھی 300 سے زائد نشستیں ملیں گے۔
خیال رہے کہ 2017 میں بی جے پی کو 403 نشستوں میں سے 320 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
بی جے پی رہنما مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کے اپوزیشن کے الزام کی بھی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے ایشوز پر الیکشن لڑتے ہیں اور اب تک عوام نے انہی بنیادو ں پر بی جے پی کی حمایت کی ہے۔
رپورٹس کے مطابق عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو عوامی مسائل کو تو اٹھاتا ہے اور مہنگائی و بے روزگاری کی بھی بات کرتا ہے البتہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہم کیا کریں بی جے پی ہمارے خون میں شامل ہے۔ ہم اس کو نہیں چھوڑ سکتے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 10 مارچ کو جو بھی نتائج برآمد ہوں گے ان کا 2024 کے پارلیمانی انتخابات پر اثر پڑے گا۔ اس الیکشن کو سیمی فائنل سمجھا جا رہا ہے۔ اگر بی جے پی کی شکست ہوئی تو اگلا پارلیمانی الیکشن جیتنا اس کے لیے مشکل ہو جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب وزیرِ اعظم مودی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے حالاں کہ بی جے پی اس بات کی تردید کرتی ہے۔