بھارت کی ریاست اتر پردیش کی حکومت کے ایک وزیر نے لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکرز کی آواز کم رکھنی چاہیے اور غیر ضروری اسپیکرز کو ہٹا دینا چاہیے۔
آنند سروپ شکلا نے ضلع بلیا کے مجسٹریٹ کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ ان کے علاقے میں پورے دن اذان ہوتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں یوگا، پوجا اور دفتری امور میں خلل پڑتا ہے۔
انہوں نے ریاستی اسمبلی کے اپنے حلقے قاضی پورہ کی ایک مسجد کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مسجد کے اطراف میں متعدد اسکول ہیں اور اذان سے طلبہ کی تعلیم پر برا اثر پڑتا ہے۔
ریاستی وزیر کے بقول انتہائی بلند آواز میں اذان اور اعلانات کے علاوہ مسجدوں سے چندے کا بھی اعلان کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے معمر افراد اور بیماروں کو پریشانی ہوتی ہے۔ ان کے بقول اذان کی وجہ سے عوام کو صوتی آلودگی کا بھی سامنا ہے۔
'اذان پر اعتراض وہی کر رہے ہیں جو مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں'
دوسری جانب مسلمان رہنماؤں نے ریاستی وزیر کے اس خط پر تنقید کرتے ہوئے اسے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔
شاہی مسجد فتح پوری دہلی کے امام مفتی مکرم احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر اعتراض وہی لوگ کر رہے ہیں جو مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم اور نفرت کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول جب سے اتر پردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت آئی ہے اس قسم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ شروع ہی میں ریاست کی حکومت کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اور تمام مسجدوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ اضافی لاؤڈ اسپیکر ہٹا لیے جائیں۔ مسجدوں کی کمیٹیوں نے اس پر عمل کیا تھا اور فاضل لاؤڈ اسپیکر ہٹا دیے گئے تھے۔
مفتی مکرم احمد نے دعوی کیا کہ یہ کچھ لوگوں کا ایجنڈا ہے جس کا مقصد اصل معاملات سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے اس لیے ایسے مسائل اٹھائے جا رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کہیں اذان کی آواز بہت تیز ہے تو اسے کم کیا جا سکتا ہے۔ صرف ضرورت کے وقت ہی لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ہونا چاہیے۔ بلا ضرورت اس کا استعمال درست نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مفتی مکرم مزید کہتے ہیں کہ آج تک کسی کو لاؤڈ اسپیکر سے اذان دینے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ان کے بقول اچانک یا تو لوگوں کے کان کمزور ہو گئے ہیں یا انہیں دوسرے مذاہب کی باتیں بری لگنے لگی ہیں۔
'آئین نے سب کو اپنے مذہب پر چلنے کی اجازت دی ہے'
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن میہا کھنڈوری کا کہنا ہے کہ اگر اذان سے پریشان ہونے والوں کے انسانی اور آئینی حقوق ہیں تو اذان دینے والوں کے بھی انسانی اور آئینی حقوق ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ آئین نے سب کو اپنے مذہب پر چلنے کی اجازت دی ہے۔ اس کے علاوہ آئین لوگوں کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ کسی کی وجہ سے کسی کے کاموں میں خلل نہیں پڑنا چاہیے۔ اگر صرف اذان سے کسی کو پریشانی ہے تو یہ ایک خاص فرقے کے مذہبی جذبات کی خلاف ورزی کا معاملہ بنتا ہے۔
ان کے بقول اذان ایک مذہبی فریضہ ہے جو بہت کم وقت میں مکمل ہو جاتی ہے۔ البتہ دوسرے بہت سے کاموں میں جو لاؤڈ اسپیکر استعمال کیے جاتے ہیں اس سے کانوں کو ضرور تکلیف ہوتی ہے۔
ان کے مطابق اگر رات میں 10 بجے سے قبل اور صبح پانچ بجے کے بعد اذان ہو رہی ہے تو اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اگر آپ کو صرف اذان سے پریشانی ہے تو یہ ایک سوال ہے۔ پھر تو آپ کو دوسری چیزوں سے بھی پریشانی ہونی چاہیے۔ پھر ہر جگہ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بند ہو جانا چاہیے۔ نہ تو ہندوؤں کی آرتی اور جاگرن ہو گا اور نہ ہی رات میں باراتیں نکلیں گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر سنگیتا سری واستو نے بھی اپنی کالونی کی مسجد سے لاؤڈ اسپیکر سے فجر کی اذان پر اعتراض کیا تھا۔
وائس چانسلر سنگیتا سری واستو نے حال ہی میں ضلع مجسٹریٹ کے نام ایک خط میں کہا تھا کہ اذان سے ان کی نیند ٹوٹ جاتی ہے اور پھر کوششوں کے باوجود نیند نہیں آتی جس کی وجہ سے دن بھر ان کے سر میں درد رہتا ہے اور وہ اپنا کام نہیں کر پاتیں۔
ان کی اس شکایت پر پولیس سول لائنز میں واقع مذکورہ مسجد کی انتظامیہ کے پاس پہنچی جس پر مسجد کے متولی نے بتایا کہ اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی ہم نے لاؤڈ اسپیکر کی آواز 50 فی صد کم کر دی ہے۔ اگر وائس چانسلر صاحبہ براہِ راست بات کر لیتیں تو فوراً ان کی شکایت پر کارروائی کی جاتی جس سے اتنا ہنگامہ نہیں ہوتا۔