ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ شہروں میں آباد ہونے سے انسان کی صحت پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شہروں کی آبادکاری کا منصوبہ بنانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحت مند طرز ِزندگی اور ماحولیات کے تحفظ کو بھی مد ِنظر رکھیں۔
اقوام ِمتحدہ کے اندازے کے مطابق 2050ء تک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں زیادہ تر جگہوں پر شہری آبادکاری کر دی جائے گی۔
سب سہارا افریقہ کی بیشتر جگہوں کی شہری آباد کاری کر دی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت سب سہارا افریقہ کی نصف ارب آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اِن افراد کو صحت کے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جِن میں بطور ِخاص دائمی امراض شامل ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شہروں میں آبادی کی اکثریت دل کے امراض اور ذیابیطس کا شکار ہو سکتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ دائمی امراض بڑھنے کی وجہ سے کوئی بھی معاشرہ بے پناہ دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے، کیونکہ اِن دائمی امراض سے بچاؤ کے لیے نہ صرف صحتمندانہ طرز ِزندگی اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ ان سے نمٹنے کے لیے آگہی کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات تک رسائی فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔
دوسری طرف، ماہرین اس بات کے بھی قائل ہیں کہ شہروں کی طرف آبادکاری سے انسان کو تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات ملتی ہیں مگر شہروں میں آباد ہونے کے اپنے نقصانات بھی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ شہری آباد کاری سے انسان کی روزمرہ زندگی کے انداز اور بطور ِخاص اس کی خوراک میں فرق پڑتا ہے۔
شہروں میں زیادہ تر ایسی خوراک کھائی جاتی ہے جس میں چربی، شکر اور نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ شہروں میں آباد ہونے والوں کی طرز ِ زندگی بدل جاتی ہے اور انہیں جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملتا، جس کے باعث وہ موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں اور اِسی کے باعث بہت سے امراض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔