دہلی اردو اکادمی کے اس ایوارڈ کو صحافتی وادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مودود صدیقی کو صحافت کا ایوارڈ ملنا ان کی خدمات کا اعتراف ہے
دہلی کے سینئر صحافی اور بھارت کے اخبارات ورسائل کی واحد ڈائرکٹری کے مرتب 75سالہ مودود صدیقی کو گزشتہ دنوں دہلی اردو اکادمی کی جانب سے صحافت کا باوقار ایوارڈ تفویض کیا گیا ہے جس میں پچاس ہزار روپے نقد کے علاوہ ایک توصیفی سند، ایک مومنٹو اور ایک شال پیش کی گئی۔ دہلی اردو اکادمی کے اس ایوارڈ کو صحافتی وادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مودود صدیقی صاحب سے میری پہلی ملاقات 1998 میں دہلی کے ترکمان گیٹ پر واقع ہفت روزہ ”اخبار نو“ کے دفتر میں ہوئی تھی۔ اس وقت میں اخبار نو کے شعبہ ایڈیٹورئیل میں کام کر رہا تھا۔ مدیر اعلی جناب م۔ افضل صاحب نے اخبار کی سرکولیشن کا کام سنبھالنے کے لیے مودود صدیقی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس وقت ان سے سرسری ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پھر میں اخبار نو سے نکل کر کہیں اور چلا گیا۔ لیکن ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر یہ ملاقاتیں تعلق میں بدل گئیں۔ تعلق کے ابتدائی ادوار کی بنیاد پر مودود صدیقی کی تہدار شخصیت کو سمجھ پانا کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔
مودود صدیقی صاحب کو سمجھنے میں مجھے ایک عرصہ لگا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کو پہچاننے کے لیے چند ملاقاتیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں لوگوں کی ان آراءکو کہ وہ ایک مجاہد اردو ہیں، وہ ایک زبردست صحافی ہیں، وہ ایک قابل اور باصلاحیت منیجر ہیں، وہ ایک ہمدرد اور مخلص انسان ہیں یا وہ دوسروں کے کام آنے والے ایسے مسیحا ہیں جو صلہ وستائش کی تمنا کے بغیر اپنے مشن میں مصروف رہتے ہیں، قطع نظر کرتے ہوئے بس یہ کہنا چاہوں گا کہ مودود صدیقی جس شخص کا نام ہے وہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کے اعتبار سے واحد ہے، اکیلا ہے، بے مثال ہے اور لاجواب ہے۔
م۔ افضل صاحب نے پارلیمنٹ میں اپنی رکنیت کے دوران اردو زبان سے متعلق اتنے سوالات پارلیمنٹ میں کیے تھے کہ وہ ایک ریکارڈ ہے جو ابھی تک نہیں ٹوٹ سکا ہے اور آئندہ بھی جس کے جلد ٹوٹنے کے امکانات نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس ریکارڈ میں مودود صدیقی کا بھی حصہ ہے۔ سوالات سازی میں ان کی عملی شرکت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس چھ سالہ مدت میں انھوں نے بہت سے ایسے کام کیے جو عام طور پر ممبران پارلیمنٹ کے سیکرٹری نہیں کر پاتے ہیں۔ یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ۔ لیکن یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ پارلیمنٹ کی رکنیت جہاں م۔ افضل صاحب کی زندگی کا ایک اہم موڑ ہے اور اس نے ان کے لیے ترقی او رکامیابی وکامرانی کے دروازے کھول دیے اسی طرح وہ دور مودود صدیقی کی زندگی کا بھی ایک اہم موڑ ہے اور اس نے ان کی زندگی کے بھی شب وروز میں نمایاں تبدیلی کر دی۔ اہم اور سرکردہ شخصیات سے ملاقاتوں او ران ملاقاتوں کی تعلقات میں تبدیلی ان کے لیے اس چھ سالہ مدت کے نمایاں واقعات میں شامل ہے۔ ان کے بارے میں جب بھی کچھ لکھا جائے گا تو اس مدت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔
دہلی اردو اکادمی کی جانب سے ان کو صحافت کا ایوارڈ ملنا ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ جتنے بڑے صحافی ہیں اس سے بڑے ”صحافی گر“ ہیں۔ ایسے بے شمار صحافی مل جائیں گے جنھوں نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور کامیابی کے ایورسٹ پر جا بیٹھے۔ ایسے بہت سے صحافی مل جائیں گے جنھوں نے صحافت سے متعلق کسی تحقیقی کام میں ان کی رہنمائی حاصل کی اور کامیاب وکامران ہوئے۔ انھوں نے صحافت سے متعلق ایسے بہت سے کام کیے ہیں جو غیر مربوط ہیں۔ اگر ان کو مربوط انداز میں مرتب کر دیا جائے تو بلا شبہہ صحافت کے شعبے میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔ ان کے بہت سے کاموں کے ہجوم میں ایک مربوط اور قابل ذکر کام بھی ہے اور وہ اردو اخبارات ورسائل کی ڈائرکٹری ہے۔ میں اسے ان کا ایک بڑا کام سمجھتا ہوں۔
انہی دنوں میں غالباً جناب نصرت ظہیر نے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ مودود صدیقی ٹرین کے اس انجن کی مانند ہیں جو ٹرین کو اس کی منزل تک تو پہنچا دیتا ہے لیکن اس کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آدھا سچ ہے۔ ان کی اپنی منزل تو ہے جس پر وہ تقریباً روزانہ ہی پہنچتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ کسی کے کام میںاس کی مدد نہ کرتے ہوں، اس کے ساتھ تعاون نہ کرتے ہوں۔ کامیابی کے ساتھ کام مکمل ہونے کے بعد ان کے چہرے پر طمانیت، آسودگی اور اندرونی خوشی کا جو احساس جھلکتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہی ان کا سرمایہ ہے اور وہی ان کی منزل بھی ہے۔ دہلی اردو اکادمی کی جانب سے صحافتی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ کی حصول یابی مودود صدیقی کو مبارک ہو۔ دہلی اردو اکادمی بھی مبارکباد کی مستحق ہے کہ دیر سے ہی سہی اس کی نظر ان پر گئی تو۔
مودود صدیقی صاحب کو سمجھنے میں مجھے ایک عرصہ لگا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کو پہچاننے کے لیے چند ملاقاتیں ہی کافی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے بارے میں لوگوں کی ان آراءکو کہ وہ ایک مجاہد اردو ہیں، وہ ایک زبردست صحافی ہیں، وہ ایک قابل اور باصلاحیت منیجر ہیں، وہ ایک ہمدرد اور مخلص انسان ہیں یا وہ دوسروں کے کام آنے والے ایسے مسیحا ہیں جو صلہ وستائش کی تمنا کے بغیر اپنے مشن میں مصروف رہتے ہیں، قطع نظر کرتے ہوئے بس یہ کہنا چاہوں گا کہ مودود صدیقی جس شخص کا نام ہے وہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کے اعتبار سے واحد ہے، اکیلا ہے، بے مثال ہے اور لاجواب ہے۔
م۔ افضل صاحب نے پارلیمنٹ میں اپنی رکنیت کے دوران اردو زبان سے متعلق اتنے سوالات پارلیمنٹ میں کیے تھے کہ وہ ایک ریکارڈ ہے جو ابھی تک نہیں ٹوٹ سکا ہے اور آئندہ بھی جس کے جلد ٹوٹنے کے امکانات نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس ریکارڈ میں مودود صدیقی کا بھی حصہ ہے۔ سوالات سازی میں ان کی عملی شرکت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس چھ سالہ مدت میں انھوں نے بہت سے ایسے کام کیے جو عام طور پر ممبران پارلیمنٹ کے سیکرٹری نہیں کر پاتے ہیں۔ یہاں اس کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ۔ لیکن یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ پارلیمنٹ کی رکنیت جہاں م۔ افضل صاحب کی زندگی کا ایک اہم موڑ ہے اور اس نے ان کے لیے ترقی او رکامیابی وکامرانی کے دروازے کھول دیے اسی طرح وہ دور مودود صدیقی کی زندگی کا بھی ایک اہم موڑ ہے اور اس نے ان کی زندگی کے بھی شب وروز میں نمایاں تبدیلی کر دی۔ اہم اور سرکردہ شخصیات سے ملاقاتوں او ران ملاقاتوں کی تعلقات میں تبدیلی ان کے لیے اس چھ سالہ مدت کے نمایاں واقعات میں شامل ہے۔ ان کے بارے میں جب بھی کچھ لکھا جائے گا تو اس مدت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔
دہلی اردو اکادمی کی جانب سے ان کو صحافت کا ایوارڈ ملنا ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ جتنے بڑے صحافی ہیں اس سے بڑے ”صحافی گر“ ہیں۔ ایسے بے شمار صحافی مل جائیں گے جنھوں نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور کامیابی کے ایورسٹ پر جا بیٹھے۔ ایسے بہت سے صحافی مل جائیں گے جنھوں نے صحافت سے متعلق کسی تحقیقی کام میں ان کی رہنمائی حاصل کی اور کامیاب وکامران ہوئے۔ انھوں نے صحافت سے متعلق ایسے بہت سے کام کیے ہیں جو غیر مربوط ہیں۔ اگر ان کو مربوط انداز میں مرتب کر دیا جائے تو بلا شبہہ صحافت کے شعبے میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔ ان کے بہت سے کاموں کے ہجوم میں ایک مربوط اور قابل ذکر کام بھی ہے اور وہ اردو اخبارات ورسائل کی ڈائرکٹری ہے۔ میں اسے ان کا ایک بڑا کام سمجھتا ہوں۔
انہی دنوں میں غالباً جناب نصرت ظہیر نے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ مودود صدیقی ٹرین کے اس انجن کی مانند ہیں جو ٹرین کو اس کی منزل تک تو پہنچا دیتا ہے لیکن اس کی اپنی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آدھا سچ ہے۔ ان کی اپنی منزل تو ہے جس پر وہ تقریباً روزانہ ہی پہنچتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ کسی کے کام میںاس کی مدد نہ کرتے ہوں، اس کے ساتھ تعاون نہ کرتے ہوں۔ کامیابی کے ساتھ کام مکمل ہونے کے بعد ان کے چہرے پر طمانیت، آسودگی اور اندرونی خوشی کا جو احساس جھلکتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہی ان کا سرمایہ ہے اور وہی ان کی منزل بھی ہے۔ دہلی اردو اکادمی کی جانب سے صحافتی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ کی حصول یابی مودود صدیقی کو مبارک ہو۔ دہلی اردو اکادمی بھی مبارکباد کی مستحق ہے کہ دیر سے ہی سہی اس کی نظر ان پر گئی تو۔