’وی او اے‘ میں کام کرنے کے بعد خدشات دور ہوتے چلے گئے۔ اجنبیت وقت کے ساتھ قصہ ِپارینہ ہوئی۔ ماحول بھی کچھ عرصے میں اپنا اپنا سا لگنے لگا کہ مجھے پردیس میں رہنے کے باوجود اپنی زبان میں اور اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا
واشنگٹن —
بعض اوقات، ایسا فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے جو آپ کی زندگی کا رخ بدل دے۔ پاکستان چھوڑ کر امریکہ آبسنا میرے لیے ایک ایسا ہی مشکل فیصلہ تھا۔
اپنے بہت سے اُن ہم وطنوں کے برعکس جن کے خواب امریکی ویزے سے شروع ہو کر امریکہ آمد پر ختم ہو جاتے ہیں، میرا معاملہ مختلف تھا۔ میں نے کبھی بھی امریکہ میں رہنے کی آرزو نہیں کی تھی۔ مجھے یہ موقع قدرت نے فراہم کیا۔
امریکہ کے ایک معتبر صحافتی ادارے سے ملازمت کی پیشکش پُرکشش تو ضرور تھی، لیکن اپنا وطن چھوڑ کر پرائے دیس میں بسنے کا خوف بہرطور موجود تھا۔ ایک ایسا ملک جو سپرپاور ہو اور جس کا منظرنامہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد یکسر بدل چکا ہو، جہاں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوالات اٹھتے ہوں۔ وہاں ایک مسلمان اور پاکستانی لڑکی کا رہنا مشکل تو نہیں ہو جائے گا؟ کہیں مستقبل کی کھوج بے سود تو نہیں جائے گی؟
ایسےبہت سےسوالات لیے میں امریکہ پہنچی جہاں میری منزل تھی ’وائس آف امریکہ‘۔
’وائس آف امریکہ‘ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہل سے کچھ ہی فاصلے پرواقع ہے۔ اسکی وسیع اور پرانی عمارت میں چوالیس مختلف زبانوں کے دفاترموجود ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی یہ تمام سروسز اپنی اپنی زبانوں میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر خبریں، تبصرے، تجزیئے اور مختلف پروگرامز پیش کرتی ہیں۔ موجودہ عالمی و سیاسی تناظر میں ’اردو سروس‘ یہاں کی ایک اہم سروس سمجھی جاتی ہے جہاں کام کرنے والے تمام براڈ کاسٹرز پاکستانی ہیں۔
وی او اے میں کام کرنے کے بعد خدشات دور ہوتے چلے گئے۔ اجنبیت وقت کے ساتھ قصہ ِپارینہ ہوئی۔ ماحول بھی کچھ عرصے میں اپنا اپنا سالگنے لگا کہ مجھے پردیس میں رہنے کے باوجود اپنی زبان میں اور اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔
ایک پاکستانی لڑکی کا امریکہ آنے، یہاں رہنے، کام کرنے اور اس معاشرے کے مشاہدے کا عمل میری توقعات سے بڑھ کر دلچسپ رہا۔ اور بہت ہی دلچسپ رہا پاکستانی نیوز روم کےبعد امریکی نیوز روم میں کام کرنے کا تجربہ۔
یوں تو امریکہ اور پاکستان میں صحافت کا موازنہ منا سب نہیں کہ امریکہ میں الیکٹرانک میڈیا کی تاریخ پرانی ہے،جبکہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ امریکہ میں ایک صحافی کو پاکستانی صحافی کے برعکس ضروریات و سہولیات میسر ہیں اور اس کی پیشہ ورانہ زندگی بھی اتنی دشوارنہیں جتنی کہ پاکستان میں ہے۔اس کے باوجود ایک ایسے پاکستانی ہونے کے ناطے جسے پاکستان اور امریکہ میں صحافت کرنے کا موقع ملا ہو، میں خود کو یہ موازنہ کرنے سے روک نہ سکی۔
’وکی پیڈیا‘ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 17 کے قریب چوبیس گھنٹے کے نمایاں نیوز چینلز کام کر رہے ہیں۔ ایک نیوز چینل کی کامیابی کا انحصار ان خبروں پر ہوتا ہے جو اس چینل سے منسلک صحافی یا نامہ نگار دیتے ہیں۔پاکستان کے نیوز چینلز کی کامیابی ان محنتی صحافیوں کے مرہون ِ منت ہے جو خوف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے فرائض کی بجا آوری کو مقدم رکھتے ہیں۔
یہاں امریکہ میں رپورٹنگ کے دوران آپ کویہ خدشہ نہیں ہوتا کہ ابھی بم پھٹ جائے گا یا گولیاں چل جائیں گی۔ لیکن پاکستان میں بڑے سیاسی جلوسوں سے لے کر خودکش دھماکوں کی کوریج تک یا پھر ٹارگٹ کلنگ سے لے کر کسی حکومت مخالف تحریک کی رپورٹنگ تک، ایک صحافی اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافتی اداروں اور نیوز چینلز کی عمارات میں صحافیوں کا ٹھکانہ ’نیوزروم‘ ہی ہوتا ہے۔ رپورٹرز، کیمرہ مین اور نان لینیر ایڈیٹرزکے لیے یہی کمرہ مخصوص ہے۔ بعض اوقات تو آپ کو یہاں پر ملاقاتی بھی دکھائی دیں گے۔ یہیں سامنے پانچ یا چھ ٹیلی ویژن سیٹ بھی لگے ہوتے ہیں جن پر مختلف نیوز چینلزمانیٹرکیے جاتے ہیں۔ ایک صحافی کو اسی ماحول میں رہتے ہوئے اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ چاہے بریکنگ نیوز ہو یا کسی سیاسی ایونٹ کی کوریج یا پھر کسی فیچر رپورٹ پر کام کرنا ہو۔
آپ کو شور و غل کے اِسی ماحول میں کام کرنا ہے۔
آپ یہ بھول جائیے کہ دفتر میں ایک الگ کمپیوٹر یا کیبن آپ کی ملکیت ہوگا۔ اکثر تو ساتھی رپورٹرز سے کمپیوٹرمستعار لے کر خبر فائل کرنی پڑتی ہے۔ ایسے میں ایک بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان میں ہمارے وہ نیوز چینلز جن پر چلنے والے اشتہارات کی تعداد انٹرٹینمنٹ چینلز پر چلنے والے اشتہارات سے بھی زیادہ ہے، صحافیوں کو ایک الگ کیبن یا کمپیوٹر کی سہولت کیوں نہیں فراہم کر سکتے؟
ایک رپورٹر کی بنیادی ذمہ داری اپنے ملک اور دنیا بھرکا سیاسی، ثقافتی، معاشی اور سماجی منظرنامہ پیش کرنا ہے۔ یہاں امریکہ میں کام کرنے والے صحافی کی بنیادی ذمہ داریاں بھی یہی ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی امریکی سیاست کا گڑھ ہے، جہاں امریکہ کے چوٹی کے سیاستدانوں کے علاوہ امریکہ اور دنیا بھر کے سیاسی منظرنامے پر نظر رکھنے والے بہت سے ’تھنک ٹینکس‘ بھی ہیں۔ کسی امریکی سیاستدان یا پھر تھنک ٹینک سے منسلک کسی ماہر کا انٹرویو مقصود ہو، اسکا طریقہ پاکستان سے قدرے مختلف ہے۔
مجھے یاد ہےکہ پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کے دنوں میں جب بھی کوئی ایم این اے یا وزیر آتا تھا تو تمام چینلز کی خواہش یہی ہوتی تھی کہ ان سے بات کی جائے۔ یوں آپ کو ایسے مناظر عام نظر آتے تھے کہ کسی وزیر یا ایم این اے کو ایک طرف سے ایک چینل کا رپورٹر کھینچ رہا ہے تو دوسری طرف سے دوسرے چینل کا۔ لیکن، امریکہ میں حکومتی نمائندے سے لے کر تھنک ٹینک سے منسلک ماہر یا یونیورسٹی کے پروفیسر سے لے کر میوزیم کے منتظم سے بات کرنے کےلیے بھی پیشگی تحریری اجازت درکارہے۔
پچھلے چند سالوں میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے جس تیزی سے ہماری دنیا بدلی ہے وہ ایک مثال ہے۔
جس وقت میں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا، اس وقت یہ رواج جڑپکڑ رہا تھا۔ اور گزرتے سالوں نے ثابت کیا کہ ٹیکنالوجی اور جدت کے اس دور میں انٹرنیٹ نے صحافت کا ایک نیا انداز متعارف کرایا ہے۔
پہلے جو خبر گھنٹوں میں آپ تک پہنچتی تھی اب وہ انٹرنیٹ کی بدولت چند لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال امریکہ میں ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات ہیں۔ جس کی پل پل کی خبر سوشل میڈیا پر موجود تھی۔ ہماری تیزی سے بدلتی سمٹتی دنیا میں کسی بھی شعبے سے وابستہ افراد کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنا ’ورک پروفائل‘ بنائیں اور اپنا کام دنیا کو دکھائیں۔
بطور نیوز رپورٹر ہر صحافی کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکا کام انٹرنیٹ پر موجود ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں بہت سے نیوز چینلز پیشہ ورانہ اصول و ضوابط کے بجائے چینل کے مالک کے متعین کردہ اصولوں پر چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اب بھی چند نیوز چینلز کے مالکان کی سوچ یہ ہے کہ ٹی وی پر چلنے والی تمام رپورٹس اس نیوز چینل کی ملکیت ہوتی ہیں جس پر وہ نشر کی جاتی ہیں اور رپورٹر کا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ اتنا بھی نہیں کہ وہ اپنی ہی بنائی ہوئی نیوز رپورٹس، نیوز کلپس یا فیچر رپورٹس کو انٹرنیٹ پر شائع کرسکے یا اپنے ذاتی ریکارڈ میں رکھ سکے۔
اس سلسلے میں، امریکی اداروں کی پالیسی مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ’یوٹیوب‘ پر نہ صرف ہمارا آفیشل چینل ’اردو وی او اے‘ کے نام سے موجود ہے بلکہ ہماری مینیجمنٹ تمام رپورٹرز کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی رپورٹس سوشل میڈیا کی ویب سائیٹس پر شائع کریں اور اپنا کام دنیا کے سامنے لائیں۔
پاکستان اور امریکہ میں صحافت کا انداز مختلف ہونے کےباوجود دل میں کہیں نہ کہیں یہ خواہش ضرور ابھرتی ہے کہ کاش ہم پاکستان میں بھی ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھ کر صحافت کے شعبے میں بہتری لا سکیں۔
مشکل ترین حالات میں بھی اپنے فرائض نبھاتے اور پل پل کی خبر دیتے ہمارے وہ صحافی جو پاکستان میں صحافت کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں، انہیں چند ایسی بنیادی سہولیات دے سکیں جو ان کا حق ہیں۔ لیکن، انڈین گانوں سے نیوز پیکجز کو سجاتے، بریکنگ نیوز کی دوڑ میں بھاگتے، چٹ پٹی خبر کی بنیاد پر چینل کو ہونے والی آمدن کا حساب لگاتے اور ریٹنگ کے گرافس کے اوپر نیچے ہوتے پیمانوں پر خبر کا رخ متعین کرنے والے ہمارے نیوز چینلز اور ان کے مالکان شاید اس منزل سے ابھی دور ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جب میڈیا کا مقصد خبر دینے کی بجائے خبر بیچنا ہو تو اصول اور ضابطہ ِاخلاق جیسی باتیں دیوانے کا خواب ہی لگتی ہیں۔
اپنے بہت سے اُن ہم وطنوں کے برعکس جن کے خواب امریکی ویزے سے شروع ہو کر امریکہ آمد پر ختم ہو جاتے ہیں، میرا معاملہ مختلف تھا۔ میں نے کبھی بھی امریکہ میں رہنے کی آرزو نہیں کی تھی۔ مجھے یہ موقع قدرت نے فراہم کیا۔
امریکہ کے ایک معتبر صحافتی ادارے سے ملازمت کی پیشکش پُرکشش تو ضرور تھی، لیکن اپنا وطن چھوڑ کر پرائے دیس میں بسنے کا خوف بہرطور موجود تھا۔ ایک ایسا ملک جو سپرپاور ہو اور جس کا منظرنامہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد یکسر بدل چکا ہو، جہاں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوالات اٹھتے ہوں۔ وہاں ایک مسلمان اور پاکستانی لڑکی کا رہنا مشکل تو نہیں ہو جائے گا؟ کہیں مستقبل کی کھوج بے سود تو نہیں جائے گی؟
ایسےبہت سےسوالات لیے میں امریکہ پہنچی جہاں میری منزل تھی ’وائس آف امریکہ‘۔
’وائس آف امریکہ‘ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہل سے کچھ ہی فاصلے پرواقع ہے۔ اسکی وسیع اور پرانی عمارت میں چوالیس مختلف زبانوں کے دفاترموجود ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کی یہ تمام سروسز اپنی اپنی زبانوں میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر خبریں، تبصرے، تجزیئے اور مختلف پروگرامز پیش کرتی ہیں۔ موجودہ عالمی و سیاسی تناظر میں ’اردو سروس‘ یہاں کی ایک اہم سروس سمجھی جاتی ہے جہاں کام کرنے والے تمام براڈ کاسٹرز پاکستانی ہیں۔
ایک پاکستانی لڑکی کا امریکہ آنے، یہاں رہنے، کام کرنے اور اس معاشرے کے مشاہدے کا عمل میری توقعات سے بڑھ کر دلچسپ رہا۔ اور بہت ہی دلچسپ رہا پاکستانی نیوز روم کےبعد امریکی نیوز روم میں کام کرنے کا تجربہ۔
یوں تو امریکہ اور پاکستان میں صحافت کا موازنہ منا سب نہیں کہ امریکہ میں الیکٹرانک میڈیا کی تاریخ پرانی ہے،جبکہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ امریکہ میں ایک صحافی کو پاکستانی صحافی کے برعکس ضروریات و سہولیات میسر ہیں اور اس کی پیشہ ورانہ زندگی بھی اتنی دشوارنہیں جتنی کہ پاکستان میں ہے۔اس کے باوجود ایک ایسے پاکستانی ہونے کے ناطے جسے پاکستان اور امریکہ میں صحافت کرنے کا موقع ملا ہو، میں خود کو یہ موازنہ کرنے سے روک نہ سکی۔
’وکی پیڈیا‘ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 17 کے قریب چوبیس گھنٹے کے نمایاں نیوز چینلز کام کر رہے ہیں۔ ایک نیوز چینل کی کامیابی کا انحصار ان خبروں پر ہوتا ہے جو اس چینل سے منسلک صحافی یا نامہ نگار دیتے ہیں۔پاکستان کے نیوز چینلز کی کامیابی ان محنتی صحافیوں کے مرہون ِ منت ہے جو خوف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے فرائض کی بجا آوری کو مقدم رکھتے ہیں۔
یہاں امریکہ میں رپورٹنگ کے دوران آپ کویہ خدشہ نہیں ہوتا کہ ابھی بم پھٹ جائے گا یا گولیاں چل جائیں گی۔ لیکن پاکستان میں بڑے سیاسی جلوسوں سے لے کر خودکش دھماکوں کی کوریج تک یا پھر ٹارگٹ کلنگ سے لے کر کسی حکومت مخالف تحریک کی رپورٹنگ تک، ایک صحافی اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافتی اداروں اور نیوز چینلز کی عمارات میں صحافیوں کا ٹھکانہ ’نیوزروم‘ ہی ہوتا ہے۔ رپورٹرز، کیمرہ مین اور نان لینیر ایڈیٹرزکے لیے یہی کمرہ مخصوص ہے۔ بعض اوقات تو آپ کو یہاں پر ملاقاتی بھی دکھائی دیں گے۔ یہیں سامنے پانچ یا چھ ٹیلی ویژن سیٹ بھی لگے ہوتے ہیں جن پر مختلف نیوز چینلزمانیٹرکیے جاتے ہیں۔ ایک صحافی کو اسی ماحول میں رہتے ہوئے اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ چاہے بریکنگ نیوز ہو یا کسی سیاسی ایونٹ کی کوریج یا پھر کسی فیچر رپورٹ پر کام کرنا ہو۔
آپ کو شور و غل کے اِسی ماحول میں کام کرنا ہے۔
آپ یہ بھول جائیے کہ دفتر میں ایک الگ کمپیوٹر یا کیبن آپ کی ملکیت ہوگا۔ اکثر تو ساتھی رپورٹرز سے کمپیوٹرمستعار لے کر خبر فائل کرنی پڑتی ہے۔ ایسے میں ایک بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان میں ہمارے وہ نیوز چینلز جن پر چلنے والے اشتہارات کی تعداد انٹرٹینمنٹ چینلز پر چلنے والے اشتہارات سے بھی زیادہ ہے، صحافیوں کو ایک الگ کیبن یا کمپیوٹر کی سہولت کیوں نہیں فراہم کر سکتے؟
ایک رپورٹر کی بنیادی ذمہ داری اپنے ملک اور دنیا بھرکا سیاسی، ثقافتی، معاشی اور سماجی منظرنامہ پیش کرنا ہے۔ یہاں امریکہ میں کام کرنے والے صحافی کی بنیادی ذمہ داریاں بھی یہی ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی امریکی سیاست کا گڑھ ہے، جہاں امریکہ کے چوٹی کے سیاستدانوں کے علاوہ امریکہ اور دنیا بھر کے سیاسی منظرنامے پر نظر رکھنے والے بہت سے ’تھنک ٹینکس‘ بھی ہیں۔ کسی امریکی سیاستدان یا پھر تھنک ٹینک سے منسلک کسی ماہر کا انٹرویو مقصود ہو، اسکا طریقہ پاکستان سے قدرے مختلف ہے۔
مجھے یاد ہےکہ پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کے دنوں میں جب بھی کوئی ایم این اے یا وزیر آتا تھا تو تمام چینلز کی خواہش یہی ہوتی تھی کہ ان سے بات کی جائے۔ یوں آپ کو ایسے مناظر عام نظر آتے تھے کہ کسی وزیر یا ایم این اے کو ایک طرف سے ایک چینل کا رپورٹر کھینچ رہا ہے تو دوسری طرف سے دوسرے چینل کا۔ لیکن، امریکہ میں حکومتی نمائندے سے لے کر تھنک ٹینک سے منسلک ماہر یا یونیورسٹی کے پروفیسر سے لے کر میوزیم کے منتظم سے بات کرنے کےلیے بھی پیشگی تحریری اجازت درکارہے۔
پچھلے چند سالوں میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے جس تیزی سے ہماری دنیا بدلی ہے وہ ایک مثال ہے۔
جس وقت میں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا، اس وقت یہ رواج جڑپکڑ رہا تھا۔ اور گزرتے سالوں نے ثابت کیا کہ ٹیکنالوجی اور جدت کے اس دور میں انٹرنیٹ نے صحافت کا ایک نیا انداز متعارف کرایا ہے۔
پہلے جو خبر گھنٹوں میں آپ تک پہنچتی تھی اب وہ انٹرنیٹ کی بدولت چند لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال امریکہ میں ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات ہیں۔ جس کی پل پل کی خبر سوشل میڈیا پر موجود تھی۔ ہماری تیزی سے بدلتی سمٹتی دنیا میں کسی بھی شعبے سے وابستہ افراد کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنا ’ورک پروفائل‘ بنائیں اور اپنا کام دنیا کو دکھائیں۔
بطور نیوز رپورٹر ہر صحافی کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکا کام انٹرنیٹ پر موجود ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں بہت سے نیوز چینلز پیشہ ورانہ اصول و ضوابط کے بجائے چینل کے مالک کے متعین کردہ اصولوں پر چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اب بھی چند نیوز چینلز کے مالکان کی سوچ یہ ہے کہ ٹی وی پر چلنے والی تمام رپورٹس اس نیوز چینل کی ملکیت ہوتی ہیں جس پر وہ نشر کی جاتی ہیں اور رپورٹر کا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ اتنا بھی نہیں کہ وہ اپنی ہی بنائی ہوئی نیوز رپورٹس، نیوز کلپس یا فیچر رپورٹس کو انٹرنیٹ پر شائع کرسکے یا اپنے ذاتی ریکارڈ میں رکھ سکے۔
اس سلسلے میں، امریکی اداروں کی پالیسی مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ’یوٹیوب‘ پر نہ صرف ہمارا آفیشل چینل ’اردو وی او اے‘ کے نام سے موجود ہے بلکہ ہماری مینیجمنٹ تمام رپورٹرز کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی رپورٹس سوشل میڈیا کی ویب سائیٹس پر شائع کریں اور اپنا کام دنیا کے سامنے لائیں۔
پاکستان اور امریکہ میں صحافت کا انداز مختلف ہونے کےباوجود دل میں کہیں نہ کہیں یہ خواہش ضرور ابھرتی ہے کہ کاش ہم پاکستان میں بھی ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھ کر صحافت کے شعبے میں بہتری لا سکیں۔
مشکل ترین حالات میں بھی اپنے فرائض نبھاتے اور پل پل کی خبر دیتے ہمارے وہ صحافی جو پاکستان میں صحافت کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں، انہیں چند ایسی بنیادی سہولیات دے سکیں جو ان کا حق ہیں۔ لیکن، انڈین گانوں سے نیوز پیکجز کو سجاتے، بریکنگ نیوز کی دوڑ میں بھاگتے، چٹ پٹی خبر کی بنیاد پر چینل کو ہونے والی آمدن کا حساب لگاتے اور ریٹنگ کے گرافس کے اوپر نیچے ہوتے پیمانوں پر خبر کا رخ متعین کرنے والے ہمارے نیوز چینلز اور ان کے مالکان شاید اس منزل سے ابھی دور ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ جب میڈیا کا مقصد خبر دینے کی بجائے خبر بیچنا ہو تو اصول اور ضابطہ ِاخلاق جیسی باتیں دیوانے کا خواب ہی لگتی ہیں۔