امریکہ نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے جانے والا ایک لڑاکا طیارہ ایک امریکی جاسوس طیارے کے آگے سے نہایت خطرناک حد تک قریب سے گزرا۔
امریکی عہدیداروں نے اسے "غیر محفوظ اور غیر پیشہ وارنہ" اقدام قرار دیا جب کہ ماسکو کا موقف ہے کہ اس کا یہ عمل بین الاقوامی فضائی قوانین کے مطابق تھا۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کی بحریہ کا پی ۔8 اے پوزیڈون طیارہ بین الاقوامی فضائی حدود میں اپنے" معمول کے آپریشن" میں مصروف تھا جب روسی ایس یو -27 طیارہ اس سے تین میٹر کے فاصلے سے گزارا۔
امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ "امریکی بحیرہ کے طیارے اور جہاز معمول کے مطابق علاقے میں مصروف عمل رہتے ہیں اور ان کا روسی یونٹوں کے ساتھ آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے تاہم یہ آپریشن محفوظ اور پیشہ وارنہ ہوتے ہیں۔"
"تاہم ہمیں اس وقت تشویش ہوتی ہے جب اس قسم کے غیر محفوظ اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں جو ممکنہ طور پر غیر ضروری کشیدگی میں اضافہ کرتے ہیں اور اندازے کی غلطی کی وجہ سے کسی حادثے کا باعث بن سکتے ہیں۔"
روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے لڑاکا طیارے کو اس وقت فضا میں بھیجا جب امریکی طیارہ روس کی سرحدکی جانب بڑھ رہا تھا اور اس نے اپنے ٹرانسپونڈرز کو بند کردیا جو شناخت کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
روسی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی جیٹ طیارے جاسوس طیارے کی شناخت اور نشاندہی کے لیے اسکے قریب پہنچے امریکی طیارہ تیزی سے اپنا رخ تبدیل کرتے ہوئے روسی سرحد کی مخالف سمت چلا گیا"۔
روسی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ روسی لڑاکا طیارے نے سختی سے بین الاقوامی قوانین پر عمل کیا۔
یہ فضائی تنازع ایک ایسے وقت سامنے آیا جب دنوں ملکوں کے درمیان کشیدگی زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ ان کا اس بارے میں اتفاق رائے نا ہونا ہے کہ شام کی خانہ جنگی میں لڑائی کو پائیدار بنیادوں پر کیسے ختم کیا جائے اور مشرقی یوکرین میں لڑائی کا کیسے خاتمہ ہو۔
بدھ کو بحیرہ اسود کے اوپر پیش آنے والا واقعہ رواں سال روسی اور امریکی جنگی طیاروں کے مابین پیش آنے والے واقعات میں سے ایک ہے۔ اپریل میں روسی فوجی طیاروں نے بحیرہ بالٹک میں ایک امریکی بحری جہاز کے قریب پروازیں کی تھیں۔
دونوں ملکوں نے 1972 میں طے پانے والے ایک سمجھوتے میں بین الاقوامی سمندری حدود میں کسی خطرناک حادثے سے بچنے کے لیے مختلف اقدامات پر اتفاق کیا تھا۔