خاتون پائلٹ کی امریکہ میں پناہ کی درخواست، افغانستان میں اظہار ناراضی

اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق نیلوفر رحمانی نے کہا تھا کہ اگر وہ واپس اپنے ملک گئیں تو اُن کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

افغانستان کی پہلی خاتون پائلٹ کی طرف سے امریکہ میں پناہ کی درخواست کی خبروں پر ملک میں ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ افغان خاتون پائلٹ تربیت کے لیے امریکہ میں ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کے مطابق افغان وزارت دفاع نے اتوار کو تصدیق کہ 25 سالہ پائلٹ کیپٹن نیلوفر رحمانی نے پناہ کی درخواست دی ہے۔

اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق نیلوفر رحمانی نے کہا تھا کہ اگر وہ واپس اپنے ملک گئیں تو اُن کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

کیپٹن نیلوفر کو 2015 میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ’’ویمن آف کریج‘‘ ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے اور اُنھیں اپنے ملک میں خواتین کی حالت زار کو بہتر بنانے کی کوششوں کے سلسلے میں ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

افغان وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق افغانستان کی حکومت کو توقع ہے کہ کیپٹن نیلوفر کی درخواست کو امریکی اداروں کی طرف سے رد کر دیا جائے گا، کیوں کہ اُن کے بقول امریکہ نے افغان سیکورٹی کی تشکیل پر اربوں خرچ کیے۔

ترجمان نے کہا کہ جب ’’ایک افسر عدم تحفظ کی شکایت کرے اور سلامتی کے خطرات سے خوفزدہ ہو تو اور اس صورت میں عام شہری کیا کرے۔‘‘

کپیٹن فیلوفر رحمانی نے 2012 میں فلائیٹ اسکول سے گریجویشن کی جس کے بعد اُنھیں ’سی – 280‘ فوجی مال بردار طیاروں کو اڑانے کا اہل قرار دیا گیا۔

وہ امریکہ میں تربیتی کورس کے لیے گئیں اور اُنھیں ہفتے کو اپنے وطن واپس پہنچنا تھا۔

افغانستان جہاں خواتین کو بہت سی پابندیوں کا سامنا ہے، اس معاشرے میں نیلوفر رحمانی کا خاتون پائلٹ بننا ایک غیر معمولی بات ہے۔

تاہم اس کامیابی کی اُنھیں قمیت بھی ادا کرنی پڑی، ’’ویمن آف کریج‘‘ ایوارڈ کے موقع پر نیلوفر نے کہا تھا کہ اُنھیں اور اُن کے خاندان کو نا صرف طالبان بلکہ اپنے رشتہ داروں کی طرف سے بھی براہ راست دھمکیاں دی گئیں، جس کی وجہ سے اُنھیں اپنا گھر بھی کئی مرتبہ بدلنا پڑا۔

دوسری طرف افغانستان کے سرگرم ’سوشل میڈیا‘ پر بھی افغان خاتون پائلٹ کو بہت کم ہمدردی ملی اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر نیلوفر کو تنقید کا سامنا رہا جس میں بعض صارفین کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لیے مہنگے تربیتی کورسز پر حکومت کا پیسہ خرچ کر رہی ہیں۔

امریکہ میں تربیت کے لیے جانے والے درجنوں افغان فوجی گزشتہ دو سالوں میں وہیں آگے پیچھے ہو گئے اور اُن میں سے کم از کم ایک کو اُس وقت تحویل میں لیا گیا جب وہ کینیڈا میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔