امریکہ اور افغانستان نے افغان طالبان کے ساتھ عن قریب براہِ راست مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
واشنگٹن —
امریکی حکام کے مطابق مجوزہ مذاکرات کی میزبانی خلیجی عرب ملک قطر کرے گا جہاں طالبان نے اپنا باقاعدہ دفتر کھول لیا ہے۔
منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحا میں ٹی وی پر براہِ راست نشر کیے جانے والے ایک خطاب میں افغان طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے تحریک کے دفتر کے باقاعدہ افتتاح کا اعلان کیا۔
اپنی تقریر میں طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی تحریک کے سیاسی اور فوجی مقاصد "افغانستان تک محدود ہیں" اور وہ دیگر ممالک کو "ضرر پہنچانے کے خواہاں نہیں"۔
امریکی روزنامے 'نیویارک ٹائمز' کے مطابق اوباما انتظامیہ کے بعض اعلیٰ عہدیداران نے افغان طالبان کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
اخبار کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنے اس بیان میں ان دو باتوں کی یقین دہانی کرادی ہے جن کا مطالبہ امریکہ مذاکرات کی پیشگی شرط کے طور پر کرتا آیا تھا۔ یعنی افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور طالبان افغان جنگ کا پرامن حل تلاش کرنے کی حمایت کریں گے۔
طالبان کے اس اعلان کے بعد امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ براہِ راست مذاکرات کے سلسلے میں امریکی حکام اور طالبان رہنمائوں کے مابین ایک ملاقات قطر میں آئندہ چند روز میں ہوگی۔
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھی آئندہ چند روز میں ایک سفارتی وفد دوحا بھیجنے کا اعلان کیا ہے جو ان کے بقول طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے آغاز کی کوشش کرے گا۔
منگل کو کابل میں افغانستان کی مکمل سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کی بین الاقوامی فوج سے مقامی افغان فورسز کو منتقلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر کا کہنا تھا کہ گو کہ افغان امن کونسل اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے کوئی فوری پیشگی شرط عائد نہیں کی گئی لیکن، ان کے بقول، ان کی حکومت اس بارے میں اپنے اصول واضح کرچکی ہے۔
صدر کرزئی کےبقول ان کے وضع کردہ اصول یہ ہیں کہ اول، قطر میں ہونےو الی ابتدائی گفتگو کے بعد مذاکرات افغانستان منتقل کردیے جائیں گے۔دوم، مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں جاری پرتشدد کاروائیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے، اور سوم یہ کہ مذاکرات کی آڑ میں کسی تیسرے ملک کو افغانستان میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا اعلان کرنے والے امریکی عہدیدار – جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے – نے بھی واضح کیا ہے کہ مذاکراتی عمل کے نتیجے میں طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کو تین شرطیں پوری کرنا ہوں گی۔
امریکی عہدیدار نے کہا کہ طالبان کو 'القاعدہ' کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے ہوں گے اور اپنی پرتشدد کاروائیاں ختم کرکے افغانستان کے آئین کو تسلیم کرنا ہوگا۔
امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ افغانستان میں استحکام کے بغیر وہ خود بھی مستحکم نہیں ہوسکتا اور اسی لیے افغانستان جاری امن عمل کے لیے پاکستان کی حمایت اس کے اپنے قومی مفادات سے ہم آہنگ ہے۔
منگل کو قطر کے دارالحکومت دوحا میں ٹی وی پر براہِ راست نشر کیے جانے والے ایک خطاب میں افغان طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے تحریک کے دفتر کے باقاعدہ افتتاح کا اعلان کیا۔
اپنی تقریر میں طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی تحریک کے سیاسی اور فوجی مقاصد "افغانستان تک محدود ہیں" اور وہ دیگر ممالک کو "ضرر پہنچانے کے خواہاں نہیں"۔
امریکی روزنامے 'نیویارک ٹائمز' کے مطابق اوباما انتظامیہ کے بعض اعلیٰ عہدیداران نے افغان طالبان کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
اخبار کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنے اس بیان میں ان دو باتوں کی یقین دہانی کرادی ہے جن کا مطالبہ امریکہ مذاکرات کی پیشگی شرط کے طور پر کرتا آیا تھا۔ یعنی افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور طالبان افغان جنگ کا پرامن حل تلاش کرنے کی حمایت کریں گے۔
طالبان کے اس اعلان کے بعد امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ براہِ راست مذاکرات کے سلسلے میں امریکی حکام اور طالبان رہنمائوں کے مابین ایک ملاقات قطر میں آئندہ چند روز میں ہوگی۔
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے بھی آئندہ چند روز میں ایک سفارتی وفد دوحا بھیجنے کا اعلان کیا ہے جو ان کے بقول طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے آغاز کی کوشش کرے گا۔
منگل کو کابل میں افغانستان کی مکمل سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کی بین الاقوامی فوج سے مقامی افغان فورسز کو منتقلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر کا کہنا تھا کہ گو کہ افغان امن کونسل اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے کوئی فوری پیشگی شرط عائد نہیں کی گئی لیکن، ان کے بقول، ان کی حکومت اس بارے میں اپنے اصول واضح کرچکی ہے۔
صدر کرزئی کےبقول ان کے وضع کردہ اصول یہ ہیں کہ اول، قطر میں ہونےو الی ابتدائی گفتگو کے بعد مذاکرات افغانستان منتقل کردیے جائیں گے۔دوم، مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں جاری پرتشدد کاروائیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے، اور سوم یہ کہ مذاکرات کی آڑ میں کسی تیسرے ملک کو افغانستان میں اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا اعلان کرنے والے امریکی عہدیدار – جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے – نے بھی واضح کیا ہے کہ مذاکراتی عمل کے نتیجے میں طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کو تین شرطیں پوری کرنا ہوں گی۔
امریکی عہدیدار نے کہا کہ طالبان کو 'القاعدہ' کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے ہوں گے اور اپنی پرتشدد کاروائیاں ختم کرکے افغانستان کے آئین کو تسلیم کرنا ہوگا۔
امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ افغانستان میں استحکام کے بغیر وہ خود بھی مستحکم نہیں ہوسکتا اور اسی لیے افغانستان جاری امن عمل کے لیے پاکستان کی حمایت اس کے اپنے قومی مفادات سے ہم آہنگ ہے۔