امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد واشنگٹن ڈی سی نے دو ہفتوں میں دوسری بار بحیرۂ جنوبی چین میں اپنے بحری بیڑے تعینات کر دیے ہیں۔
امریکی بحریہ کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق امریکہ کے دو بحری بیڑوں 'یو ایس ایس نمٹز' اور 'یو ایس ایس رونلڈ ریگن' نے رواں ماہ چار سے چھ جولائی کے دوران بحیرہ جنوبی چین میں فوجی مشقیں کی تھیں اور اب انہیں جمعے کو دوبارہ اس خطے میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکہ کی طرف سے دو بحری بیڑوں کی بحیرۂ جنوبی چین میں تعیناتی کی وجوہات سیاسی یا دنیا میں رونما ہونے والے واقعات نہیں ہیں۔ لیکن امریکی بحریہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ چاہے وہ کرونا وائرس ہو، تجارت ہو یا پھر ہانگ کانگ سے متعلق معاملات، ان تمام مسائل پر دونوں ملکوں کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
امریکی بحری بیڑے 'نمٹز' کے ریئر ایڈمرل جم کرک نے کہا ہے کہ 'یو ایس ایس نمٹز' اور 'یو ایس ایس ریگن' بحیرۂ جنوبی چین میں تعینات کیے گئے ہیں جہاں بین الاقوامی قوانین خطے میں موجود امریکہ کے اتحادیوں کو مدد فراہم کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ بحیرۂ جنوبی چین کا یہ خطہ متنازع ہے۔ چین اس کے 90 فی صد حصے پر ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن خطے کے دیگر ممالک برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام اس دعوے کو نہیں مانتے۔
رواں ماہ کے آغاز میں چین نے بحیرۂ جنوبی چین میں جنگی مشقیں بھی کی تھیں جس کی ویتنام اور فلپائن نے شدید مذمت کی تھی۔ اسی دوران امریکہ نے اپنے دو بحری بیڑوں کو اس خطے میں بھیجا تھا۔ امریکی بحریہ کا کہنا ہے کہ بحری بیڑوں کا وہاں جانا پہلے سے شیڈول تھا۔
امریکی بحریہ کے مطابق مغربی بحرالکاہل میں ان کی جنگی مشقیں پہلے سے ہی جاری تھیں جن کا دائرہ کار بحیرۂ جنوبی چین تک بڑھا دیا گیا۔
'رائٹرز' کا کہنا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب بحیرۂ جنوبی چین میں تین امریکی بحری بیڑے تعینات تھے۔
خیال رہے کہ بحیرۂ جنوبی چین سے ہر سال تین ہزار ارب ڈالرز کی تجارت کی جاتی ہے جب کہ امریکہ یہ الزام لگاتا ہے کہ چین اس خطے میں اپنے ہمسایہ ممالک کو خوف زدہ کرتا ہے جو اس بحری راستے سے تیل کی ترسیل کرنا چاہتے ہیں۔