'ٹیرر واچ لسٹ میں شمولیت سے پاکستان کی مشکلات بڑھیں گی'

فائل فوٹو

مفتاح اسمعیل نے بتایا ہے کہ یہ تحریک ابتدائی طور پر امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور بعد ازاں فرانس اور جرمنی نے بھی اس کے تائید کر دی ہے

پاکستان کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے بعض اتحادی ملکوں نے پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کی تحریک پیش کی ہے جو مبینہ طور پر عالمی سطح پر دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے فنڈز کی فراہمی کی روک تھام کے ضابطۂ کار پر عمل نہیں کرتے۔

یہ بات پاکستان کے مشیرِ خزانہ مفتاح اسمعیٰل نےخبر رساں ادارے 'رائیٹرز' سے گفتگو میں کہی ہے۔

مفتاح اسمعیل نے بتایا ہے کہ یہ تحریک ابتدائی طور پر امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور بعد ازاں فرانس اور جرمنی نے بھی اس کے تائید کر دی ہے جس کے تحت پاکستان کا نام پیرس میں قائم بین الحکومتی ادارے 'فنانشل ایکشن ٹاسک فورس' یعنی (ایف اے ٹی ایف) کی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

یہ واچ لسٹ غیر قانونی مالیاتی لین دین کی سرگرمیوں کی نگرانی سے متعلق ہے۔

مفتاح اسمعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ملک یہ تحریک واپس لے لیں۔

اقتصادی امور کے تجزیہ کار قیصر بنگالی نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ اگر پاکستان کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی واچ لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے پاکستان کو ایک مشکلِ صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "اس کی وجہ سے پاکستان کو شدید مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس کا بالواسطہ نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ جو غیر ملکی سرمایہ کار اور وہ لوگ جو پاکستان کے ساتھ تجارت کرتے ہیں، اس حوالے سے محتاط رویہ اخیتار کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تجارت نہ کریں اور نہ ہی یہاں سرمایہ کاری کریں تاکہ مستقبل میں انہیں کسی مشکل صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ اس کی وجہ سے پاکستان کی تشخص پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔"

حالیہ برسوں میں پاکستان کو ان کالعدم تنظیموں اور عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرنے پر تنقید کا سامنا رہا ہے جو مبینہ طور پر نام بدل کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھیں۔

تاہم پاکستان کی حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ ایسی تنظیموں کی سرگرمیوں کی بلاتفریق نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے۔

حال ہی میں پاکستان نے دہشت گردی سے متعلق قانون میں ترمیم کی ہے جس کے تحت اب ان تنظیموں اور عناصر کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکے گی جن پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پہلے ہی تعزیرات عائد کر چکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق رواں ہفتے جاری ہونے والے ترمیمی آرڈیننس کے تحت متعلقہ ادرے ایسی تنظیموں کو مالی وسائل کی فراہمی روکنے کے لیے تمام ضروری کارروائی کرنے کے پابند ہوں گے۔

قیصر بنگالی نے کہا کہ جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں کو روکنا پاکستان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔

"دنیا ہمیں کہے یا نہ کہے، یہ ہماری اپنی قدریں ہونی چاہئیں کہ ہم کسی قسم کی دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے اور کسی بھی ایسے مالیاتی لین دین کو برداشت نہیں کریں گے جو کسی غیر قانونی سرگرمی کا باعث بنے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی ہمیں ایسا کرنے کا کہہ رہا ہے یا ہمیں متبنہ کر رہا ہے تو پھر ہم اپنے معاملات ٹھیک کریں۔"

پاکستان میں 60 سے زائد شدت پسند تنظمیوں کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے جن میں لشکرِ طیبہ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن سمیت بعض وہ تنظیمیں بھی شامل ہیں جن پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور امریکہ بھی پابندی لگا چکے ہیں۔