بحیرۂ احمر میں تجارتی جہازوں کی سیکیورٹی کے لیے امریکہ کی قیادت میں قائم کی گئی کثیر القومی ٹاسک فورس میں 20 سے زائد ممالک کی شمولیت کے باوجود بعض ممالک سامنے آنے سے گریزاں ہیں۔
امریکہ کے دو یورپی اتحادیوں اٹلی اور اسپین کے حکام نے عندیہ دیا ہے کہ وہ یا تو نیٹو اور یورپین اتحاد کے تحت یا اپنے طور پر اس اہم آبی گزرگاہ میں اپنے مفادات کا تحفظ کریں گے۔
امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ اس ٹاسک فورس میں 20 سے زیادہ ممالک شامل ہیں۔ لیکن اب تک 12 ملکوں کے نام سامنے آ سکے ہیں۔
برطانیہ، یونان اور دیگر نے امریکی قیادت میں بننے والی ٹاسک فورس میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن ٹاسک فورس میں شامل کچھ ممالک ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اٹلی کی وزارتِ دفاع کے مطابق وہ بحیرۂ احمر میں ایک جنگی جہاز بھیجے گی البتہ یہ اقدام امریکی ٹاسک فورس کے تحت نہیں ہو گا۔
فرانس نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بحیرۂ احمر میں آزادانہ نقل و حمل یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گا۔ لیکن فرانس خود اس کی قیادت کرے گا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس مشن میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ غزہ جنگ کے باعث ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے بحیرۂ احمر سے گزرنے والے اسرائیلی تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کی وجہ سے اس اہم آبی گزرگاہ کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان لگے گئے تھے۔
حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ حملے غزہ میں جاری اسرائیل کی کارروائی کے ردِ عمل میں کر رہے ہیں۔
حوثی باغیوں نے 19 نومبر کے بعد بحیرۂ احمر سے گزرنے والے لگ بھگ 20 بحری جہازوں کو میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا۔
ٹاسک فورس میں شامل امریکی، برطانوی اور فرانس کی بحریہ نے اس دوران حوثی باغیوں کے کئی میزائلوں اور ڈرونز کو ناکارہ بنایا۔
پینٹاگان کا کہنا ہے کہ یہ فورس 20 سے زیادہ ممالک پر مشتمل ایک دفاعی اتحاد ہے تاکہ بحیرۂ احمر کے ذریعے اربوں ڈالر کی تجارت آزادانہ طور پر ہو سکے۔ لیکن ان میں سے آدھے سے زیادہ ممالک نے تاحال امریکہ کو اپنی حمایت کا باضابطہ طور پر یقین نہیں دلایا۔ ٹاسک فورس میں شمولیت جنگی جہاز بھیجنے سے لے کر محض اسٹاف آفیسر بھیجنے تک ہو سکتی ہے۔
امریکہ کے میجر جنرل پیٹرک رایئڈر نے گزشتہ ہفتے صحافیوں کو بتایا تھا کہ امریکہ چاہے گا کہ دوسرے ملک اپنی شرکت کے بارے میں خود بات کریں۔
یورپی ممالک کے شہریوں کا ردِ عمل ہچکچاہٹ کی وجہ
ماہرین کے مطابق ممالک کی ہچکچاہٹ کی جزوی طور پر وجہ اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں کی وجہ سے جنم لینا والا عالمی ردِ عمل اور تقسیم ہے۔
اس ردِ عمل کے باوجود امریکہ بدستور اسرائیل کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔
حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق غزہ میں سات اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی اسرائیل کی کارروائیوں میں 21 ہزار سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
SEE ALSO: مشرقِ وسطیٰ میں جنگ پھیلنے کا خطرہ، صدر بائیڈن کے لیے بڑا چیلنجمیڈرڈ کی کمپلیٹنس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ کے پروفیسر ڈیوڈ ہرنینڈز کہتے ہیں کہ "یورپی حکومتیں بہت پریشان ہیں کہ اس تنازعے میں فریق بننے کی وجہ سے ووٹرز کا کچھ حصہ ان کے خلاف ہو جائے گا کیوں کہ یورپی ممالک میں عوام اسرائیل سے نالاں ہیں۔"
ماہرین کے مطابق بائیڈن انتظامیہ سمجھتی ہے کہ بحیرۂ احمر کی سیکیورٹی کو غزہ جنگ سے الگ نظر سے دیکھنا چاہیے۔
آبی گزرگاہ کی اہمیت
بحیرۂ احمر کے ذریعے دنیا کی لگ بھگ 12 فی صد تجارت ہوتی ہے۔ اس کے ایک کنارے پر آبنائے باب المندب ہے جب کہ دوسرے کنارے پر سوئز کینال ہے۔
اس سمندری راستے کے ایک طرف یمن اور سعودی عرب ہیں جب کہ دوسری طرف سوڈان اور مصر ہیں۔
غزہ میں جاری جنگ کے دوران یمن کے ایک بڑے حصے پر قابض حوثی باغی بحیرۂ احمر سے گزرنے والے ہر اس مال بردار بحری جہاز کو نشانہ بنا رہے ہیں جس پر انہیں شبہہ ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اسرائیل سے ہے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔