امریکہ میں محکمہ انصاف کے مطابق امریکہ میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے جرم میں 1985 سے قید امریکی شہری جوناتھن پولارڈ کو اسرائیل جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
جوناتھن پولارڈ کو 2015 میں جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ تاہم ان پر پیرول کی پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کے بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
جوناتھن پولارڈ اسرائیل کو خفیہ امریکی دستاویزات فراہم کرنے کے جرم میں 30 برس تک امریکہ کی جیل میں قید رہے ہیں۔
محکمۂ انصاف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پولارڈ کے کیس کو دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس بات کا خدشہ نہیں ہے کہ وہ اب قانون توڑیں گے۔
جوناتھن پولارڈ کی عمر 66 برس ہے جو 1980 کی دہائی میں امریکہ میں نیول انٹیلی جنس انالسٹ تھے۔ انہوں نے نیو یارک میں ایک اسرائیلی کرنل سے رابطہ کیا اور انہیں ہزاروں ڈالر کے عوض امریکی راز فروخت کرنا شروع کیے۔
انہوں نے ہزاروں امریکی دستاویزات اسرائیل کو فراہم کیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بھی تناؤ آیا۔
سی آئی اے کے 2012 کے ڈی کلاسیفائیڈ کاغذات کے مطابق پولارڈ کی جانب سے فراہم کی گئیں معلومات کی بنیاد پر اکتوبر 1985 میں اسرائیل نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے تیونس کے ہیڈ کوارٹرز پر چھاپہ مارا تھا جس کے دوران 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
2015 میں انہیں سخت شرائط پر رہا کیا گیا تھا۔ انہیں ہر وقت کلائی پر مانیٹر پہنے رکھنا تھا اور انہیں کسی بھی ایسی کمپنی میں کام کرنے پر پابندی تھی جس کے کمپیوٹر سسٹم پر امریکی حکومت کا مانیٹرنگ سافٹ وئیر نہ ہو۔
اس کے علاوہ وہ بیرونِ ملک بھی سفر نہیں کر سکتے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پولارڈ کے وکیل کے مطابق یہ پابندیاں ان کے لیے نوکری حاصل کرنے میں شدید رکاوٹ تھیں۔
اسرائیل کا امریکہ پر پولارڈ کو رہا کرنے کا مسلسل دباؤ تھا اور اسے دو طرفہ تعلقات میں سرفہرست معاملہ رکھا جاتا تھا۔
ان کے وکلا، ایلیٹ لائیر اور جیکس سیمیل مین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ شکرگزار ہیں اور خوش ہیں کہ ان کا مؤکل بالآخر پابندیوں سے آزاد ہوگیا ہے اور اب وہ ہر طرح سے آزاد انسان ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولارڈ خوش ہیں کہ وہ بالآخر اپنی اہلیہ ایستھر کی مدد کر سکیں گے جو کینسر کے مرض سے لڑ رہی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ یہ جانیں کہ یہ ان کی اہلیہ ہی تھیں جن کی وجہ سے وہ جیل میں اتنے برس زندہ رہے۔
اپنے بیان میں پولارڈ نے اسرئیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو اور اسرائیلی سفیر ران ڈرمیر کا ان کی کوششوں پر شکریہ ادا کیا۔