امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بدھ کے روز شام پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے شام کے صدر بشار الاسد اور ان کی حکومت پر دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔ تاہم یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ ان سے جنگ سے تباہ حال شام کی آبادی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
یہ پابندیاں صدر اسد کے اہلِ خانہ، شامی حکومت کے عہدیداروں اور تیسرے فریق کے طور پر ان کی مدد کرنے والوں کا احاطہ کرتی ہیں۔
کانگریس کی جانب سے منظور کردہ سیزر سیرین سویلین پروٹیکشن ایکٹ کے تحت، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ صدر اسد کی حکومت سے کسی بھی قسم کے لین دین میں ملوث تیسرے فریق پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
ٕامریکی محکمہ خارجہ اور خزانہ کے جانب سے اعلان کردہ پابندیوں کے بارے میں وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سن 2011 میں شروع ہونے والے شام کے تنازع کے آغاز سے اسد حکومت نے لاتعداد ظالمانہ کاروائیاں کی ہیں جن میں ماورائے عدالت گرفتاریاں، تشدد، جنسی تشدد اور قتل و غارت گری شامل ہیں۔ ان قابلِ نفرت اقدامات نے ملک کی آبادی، بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
نئی کی پابندیاں، یہ واضح پیغام دیتی ہیں کہ کوئی بھی فرد یا ادارہ اس بدمعاش حکومت سے کسی بھی قسم کے لین دین میں ملوث نہیں ہونا چاہئیے۔
ایران اور روس
ویسے تو امریکہ اور یورپی یونین نے پہلے سے ہی شام کے خلاف متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، تاہم سیزر ایکٹ کا ہدف ایران اور روس جیسے اتحادیوں سمیت وہ ہیں، جو شام کو مالی اور دیگر امداد فراہم کرتے ہیں۔ ایسی غیر ملکی کمپنیاں بھی ان پابندیوں کا ہدف بن سکتی ہیں جو جبر و استبداد کی حمایت کرتی ہیں۔
مزید، صدر اسد کی اہلیہ اسما الاسد بھی پہلی مرتبہ ان پابندیوں کی زد میں آ سکتی ہیں۔
سیزر ایکٹ شامی فوج کے رکن سے منسوب ہے، جو سیزر کے نام سے جانا جاتا ہے، اور جس نے سن 2014 میں فوج سے انحراف کرتے ہوئے، 53 ہزار سے زیادہ ایسی تصاویر فراہم کی تھیں جو مبینہ طور پر شام میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
دس سال سے جاری خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی جب لوگوں نے اسد حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ اسد حکومت نے اس احتجاج کو دبانے کیلئے زبردست پکڑ دھکڑ کی جس سے اب تک تین لاکھ 70 ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔
مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کا مقصد، شام کے عوام کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اسد حکومت کے خلاف ایک معاشی اور سیاسی مہم کے ذریعے دباؤ ڈالنا ہے تا کہ وہ تباہ حال عوام کے خلاف عسکری کاروائیاں بند کرے۔
مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اسد اس غیر ضروری اور بے رحمانہ جنگ کو بند کرے۔ آج اسد حکومت اور اس کے حمایتیوں کو صرف ایک سادہ سا انتخاب کرنا ہے، اور وہ ہے کہ اسے شام کے تنازع کے ایک پائیدار سیاسی حل کیلئے، ایسے ناقابل واپسی اقدامات کرنے ہوں گے، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد 2254 کے عین مطابق ہوں، ورنہ اسے سخت نقصان پہنچانے والی پابندیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہےکہ وہ ایک پائیدار سیاسی حل کا حامی ہے، اور اسد حکومت اور اس کے سرپرستوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ شامی تنازع کو پر امن طور پر ختم کرنے کیلئے سیاسی حل ہی واحد طریقہ کار ہے۔
عام شہریوں پر اثرات
تاہم حالیہ ہفتوں میں پابندیوں کے حوالے تنقید کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ یہ خدشات زور پکڑ رہے ہیں کہ ان سے شام کے عام شہریوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق،شام کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی دوسرے ملکوں میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ بہت سے شامیوں نے حال ہی میں ملک کی تباہ حال معیشت کو بہتر بنانے کیلئے مظاہرے کئے ہیں۔
اقوام متحدہ کیلئے چین کے سفیر زینگ جُن کا منگل کے روز منعقد ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہنا تھا کہ ایک عالمی وبا کے دوران ایسی پابندیوں کا نفاذ، غیر انسانی ہے۔ شام کی حکومت نے سیزر ایکٹ کو معاشی دہشت گردی قرار دیا ہے۔