ایک وفاقی اپیل عدالت نے منگل کو اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ان الزامات سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے کہ انہوں نے 2020 کے انتخابات میں اپنی شکست کو پلٹنے کی سازش کی تھی۔ اس فیصلے نے سابق امریکی صدر کوایک ایسے کرمنل ٹرائل کے مزید قریب پہنچا دیا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کے لیے امریکی عدالت برائے اپیل کے تین ججوں کے پینل نے ٹرمپ کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ ان کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا کیونکہ ان پر لگائے گئے الزامات کا تعلق صدر کے طور پر ان کی سرکاری ذمہ داریوں سے ہے۔
یہ فیصلہ، جس کے خلاف ٹرمپ کی جانب سے اپیل تقریباً یقینی ہے، مقدمے میں ان الزامات کی سماعت سے بچنے کی ان کی کوشش کو روکتا ہے کہ انہوں نے امریکی جمہوریت اور اقتدار کی منتقلی کو نقصان پہنچایا۔
SEE ALSO: ٹرمپ کے استثنا کا معاملہ؛ محکمۂ انصاف کا امریکی سپریم کورٹ سے جلد فیصلہ کرنے کی درخواستیہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی نامزدگی کے لیے سب سے آگے ہیں اور ان کی پوزیشن مستحکم ہے۔
ٹرمپ کے وکلاء نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق صدور بڑے پیمانے پر قانونی تحفظات کے حقدار ہوتے ہیں اور ان کے خلاف سرکاری کارروائیوں کے سلسلے میں مجرمانہ مقدمے کی کارروائی نہیں کی جا سکتی تاوقتکہ ایوان نمائندگان کے ذریعے ان کا مواخذہ نہ کیا جائے اور سینیٹ کے ذریعے انہیں عہدے سے ہٹایا نہ جائے۔
ایوان نے ٹرمپ کا دو بار مواخذہ کیا لیکن ہر بار سینیٹ کے ریپبلکنز نے انہیں الزامات سے بری کرنے کے لیے کافی تعداد میں ووٹ ڈالے۔
ججوں نے 9 جنوری کو ہونے والی سماعت میں ٹرمپ کے دعوے کی وسیع تر نوعیت پر غور کیا اور انہون نے ٹرمپ کے وکیل سے سوال کیا کہ آیا ایک صدر جس نے فوجی کمانڈوز کو سیاسی حریف کو قتل کرنے کا حکم دیا ہو، وہ کانگریس کی ابتدائی کارروائی کے بغیر فوجداری مقدمے سے بچ سکتا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے مقدمے کے سلسلے میں اور سوشل میڈیا پر بار بار اپنے استثنیٰ کے دعوے کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے 18 جنوری کی ایک پوسٹ میں کہا کہ تمام صدرو کو مکمل صدارتی استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے۔
SEE ALSO: ری پبلکن صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں ٹرمپ کی ایک اور کامیابیخصوصی وکیل جیک اسمتھ کی طرف سے پیش کی گئی فرد جرم میں ٹرمپ پر ملک کے قانون سازوں، محکمہ انصاف کے اہل کاروں اور اس وقت کے نائب صدر مائیک پینس پر انتخابی نتائج کی تصدیق کو ناکام بنانے کے لیے ووٹنگ میں فراڈ کے جھوٹے دعوؤں کے استعمال کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ ان چار مجرمانہ مقدمات میں سے ایک ہے جن کا ٹرمپ کو سامنا ہے ۔ اور دو میں سے ایک مقدمے میں 2020 کے انتخابات میں مداخلت کا الزام ہے۔
ٹرمپ نے چاروں جرائم میں کہا ہے کہ وہ قصوروار نہیں ہیں اور استغاثہ پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ سیاسی طور پر ان کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سے قبل دسمبر میں امریکی ڈسٹرکٹ جج تانیا چٹکن نے ٹرمپ کی جانب سے استثنیٰ کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا، جس کے خلاف ٹرمپ نے اپیل دائر کی تھی۔
اگر عدالتوں میں ٹرمپ کی اپیل قبول نہیں کی جاتی ہے، تو بھی یہ امکان موجود ہے کہ یہ اپیل 4 مارچ کو مقدمے کی طے شدہ سماعت میں تاخیر کرنے اور ممکنہ طور پر سماعت کو نومبر کے انتخابات کے بعد تک لے جانے کے اپنے مقصد کو حاصل کر لے گی۔ ٹرمپ کی اپیل کے دوران کیس التوا میں ہے۔
اگر ٹرمپ الیکشن جیت جاتے ہیں تو وہ خود کو معافی دے سکتے ہیں یا محکمہ انصاف کو کیس بند کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔
SEE ALSO: ٹرمپ کے خلاف فوجداری مقدمے کی سماعت آئندہ برس25 مارچ مقررٹرمپ مکمل ڈی سی سرکٹ کورٹ اور امریکی سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر نظرثانی کے لیے کہہ سکتے ہیں، جو ممکنہ طور پر ہفتوں یا مہینوں کی اضافی تاخیر کا باعث بن سکتا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)