شام میں امریکہ کی حمایت یافتہ جمہوری فورسزنے مشرقی علاقوں میں داعش کے بچے کچے ٹھکانوں اورپناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لئے فیصلہ کن کارروائی شروع کردی ہے۔
سیرین ڈیموکریٹک فورس(ایس ڈی ای)کے ترجمان مصطفیٰ بالی نے ٹوئٹ میں اعلان کیا کہ ایس ڈی ایف نے داعش کے زیرقبضہ آخری گاؤں باغز کی جانب پیش قدمی شروع کردی ہے۔باغزکوجلد ہی داعش سے کلیئر کرالیا جائے گا۔
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈپریس سے گفتگومیں مصطفیٰ بالی کا کہنا تھاکہ داعش اورایس ڈی ایف کے درمیان شدید جھڑپیں ہورہی ہیں اور یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کب تک جاری رہیں گی۔
ایس ڈی ایف جسے امریکہ کی قیادت میں اتحادیوں کی فضائی کارروائی کی مدد حاصل ہے چار مربع کلومیڑ کے علاقے میں داعش کے خلاف جنگ کر رہی ہے۔ اس میں باغز بھی شامل ہے جو عراقی سرحد کے قریب ہے۔
ایس ڈی ایف اور برطانیہ کی تنظیم سیرئین آبزروٹیری فورہیومن رائٹس کے اندازوں کے مطابق داعش کے تقریباً تین ہزار جنگجو جن میں بڑی تعداد میں غیرملکی شامل ہیں، علاقے میں موجود ہیں۔ عام شہریوں کی بڑی تعداد بھی اس علاقے میں محصورہے۔
ایس ڈی ایف کے خصوصی یونٹس شہریوں کومحفوظ مقامات تک منتقلی میں مدد کررہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے شامی شہریوں اورغیرملکی شہریوں سمیت 23ہزارافراد نے شام کے مشرقی علاقے سے ہجرت کی۔ان مہاجرین کوجن میں خواتین اوربچوں کی اکثریت ہے انہیں مغربی شام میں الہول کیمپ میں رکھا گیا ہے۔اس دوران کردش وائے پی جی ملیشیا نے داعش کے زیرقبضہ دیرالزورمیں کارروائی کی تیاری کی۔
کیمپ کے ایڈمنسٹریٹر نبیل حسن نے وائس آف امریکہ کوبتایا کہ نئے پناہ گزینوں میں زیادہ ترخواتین اوربچے شامل ہیں جو غیرملکی اورداعش جنگجوؤں کے اہل خانہ ہیں۔
ایس ڈی ایف نے دیرالزورمیں داعش کے خلاف ستمبرمیں آپریشن شروع کیا تھا۔اس آپریشن کی رفتارداعش کی سخت مزاحمت کے باعث سست رہی۔
شام میں خانہ جنگی کا آغاز2011میں عرب اسپرنگ مظاہروںکے ساتھ ہواتھا۔اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق 2011سے اب تک چارلاکھ سے زائد شامی شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
چھ ملین شامیوں کواندرون ملک ہجرت کرنا پڑی جبکہ پانچ ملین بیرون ملک ہجرت پرمجبورہوئے۔
بروکنگز انسٹیٹیوشن کے مطابق ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کی تعداد3.5ملین ہے۔