اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کی جانب سے بستیوں میں توسیع کے اعلان پر پیر کے روز ’’ تشویش اور پریشانی‘‘ کا اظہار کیا ہے ۔ اسرائیل نے گزشتہ ہفتے بستیوں میں توسیع اور موجودہ نو بستیوں کو قانونی حیثیت دینے کا اعلان کیا تھا۔
15 رکنی سلامتی کونسل نے گزشتہ چھ برسوں سے زائد عرصے کے بعد بستیوں کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے جس کی بنیادی وجہ امریکہ کا ویٹو کا اختیار ہے اور جسے وہ اقوام متحدہ میں روایتی طور پر اسرائیل کے تحفظ کے لیے استعمال کرتا ہے ۔سلامتی کونسل میں اس معاملے پر تشویش کا اظہار ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب دونوں فریقوں یعنی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اس برس کے آغاز سے اب تک کم از کم 47 فلسطینی اور 10 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں ۔
امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’ہم اسرائیل کے اس اعلان کی شدید مخالفت کرتےہیں کہ وہ ہزاروں نئے یونٹس کی تعمیر کرے گااور اسرائیل کے اس اعلان کی بھی مخالفت کرتے ہیں کہ وہ مغربی کنارے میں ان نئی 9 بستیوں کو قانونی حیثیت دے گا جو پہلے اسرائیلی قانون کے تحت غیر قانونی تھیں ۔
امریکی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ ان یک طرفہ اقدامات سے کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اوراس سے دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ایسے اقدام سے مذاکرات کے ذریعے دو ریاستی حل کے امکانات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ امریکہ ایسے اقدامات کی بالکل حمایت نہیں کرتا۔ ‘‘
اختتام ہفتہ ہونے والے سفارتی اقدام میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن اور فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو ٹیلی فون کالز شامل تھیں اور اس طرح واشنگٹن نے اس بیان پر بات کی جسے کونسل کی جانب سے صدارتی بیان کے طور پر جانا جاتا ہے۔
فلسطینی بنیادی طور پر پیر کے روز ایک قرارداد پر ووٹنگ کرانا چاہتے تھے اور یہ ایک ایسا قدم تھا جو بائیڈن انتظامیہ کو اپنا ویٹو کا اختیار ایک ایسے وقت پر استعمال کرنےکے لیے مجبور کر سکتا تھا جب وہ یوکرین کی جنگ کو عالمی توجہ کا محور بنائے رکھنے کا خواہاں ہے۔ اس لیے فلسطینیوں نے کونسل کے رکن متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر قرارداد کا مسودہ واپس لیا اور ایک صدارتی بیان پر اتفاق کر لیا۔
یہ بیان قرارداد سے ایک درجہ کم ہے اور اس پر کونسل ارکان کی متفقہ رضا مندی درکار ہے ۔فلسطینی نمائندے رعد منصور نے رپورٹروں کو بتایا کہ ’’ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ایک متحدہ محاذ بنایا ہے جس میں ہر ایک رکن شریک ہے جب کہ دوسرے فریق کو تنہا کر دیا گیا ہے اور یہی درست سمت کی جانب ایک قدم ہے‘‘۔
دوسری جانب اسرائیلی سفیر جلاد اردان نے کہا کہ ’’ ایک بار پھر یہ میٹنگ اسرائیل کی مذمت کے لیے کی گئی۔ اس مرتبہ اس میں پہلے ہی سے موجود کمیونیٹیز کوتعمیراتی پرمٹ جاری کرنے کے معاملے پر بات ہوئی ۔ہمارے وطن میں تعمیراتی پرمٹ بین الاقوامی سطح پر ہنگامے کا باعث بنتے ہیں جب کہ مردہ یہودی بچوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاتا۔ یہ واقعی ہتک آمیز ہے۔‘‘
SEE ALSO: مغربی کنارے میں دس ہزار آباد کاری یونٹس کی تعمیر کےسخت خلاف ہیں : اینٹنی بلنکنسلامتی کونسل کے پیر کے اس بیان سے دو ریاستی حل کے لیے’’مستحکم عزم ‘‘کی دوبارہ تصدیق ہوتی ہے اور یہ بھی کہ بستیوں کی تعمیر جیسی اسرائیلی کارروائیاں ’’اس امکان کے لیے خطرناک حد تک نقصان دہ ہیں۔ ‘‘
کونسل نے یروشلم میں مقدس مقامات کی تاریخی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے صبروتحمل پر زور دیا۔
کونسل کے متعدد ارکان نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ تشدد کو پھر ہوا مل سکتی ہے کیونکہ مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان اور یہودیوں کی پاس اوور تعطیل اور ایسٹر اس سال ایک ساتھ ہو رہے ہیں ۔
اسی دوران نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے بائیڈن انتظامیہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں اس ماہ کے اوائل میں اجازت دی گئی 9 بستیوں کے علاوہ مزید نئی بستیوں کی اجازت نہیں دے گا۔
نئی بستیوں کی منظوری نہ دینے کا یہ وعدہ اسرائیلی حکومت کے رہنما اصولوں سے متصادم ہے جس سے مراد یہ ہے کہ نیتن یاہو کو اپنے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کی جانب سے ناراضی کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ پہلے سے موجود بستیوں میں تعمیر جاری رہنے کی توقع ہے جیسا کہ اسرائیل کی سابقہ انتظامیہ کے دور میں ہوتا آیا ہے۔
اس رپورٹ کی کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔