|
وائٹ ہاؤس نے منگل کو کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کو غزہ میں یرغمالوں کی رہائی کے لیے جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچنے کے لیے اپنے موقف میں باقی ماندہ فاصلے کو دور کرنا چاہیے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے ایک ایسے موقع پر جب مذاکرات کار تازہ بات چیت کے لیے قاہرہ میں جمع ہو رہے ہیں، نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ فاصلہ ختم کیا جا سکتا ہے۔
کربی نے بتایا کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے پیر کو بات چیت میں تعطل ختم کرنے کے لیے اسرائیلی تجویز پر ترامیم پیش کیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترامیم کے بعد معاہدے کے مسودے میں اب دونوں فریقوں کے موقف میں انتہائی معمولی فرق باقی رہ گیا ہے۔
SEE ALSO: غزہ جنگ بندی کی تجویز کیا ہے جو حماس کو منظور اور اسرائیل کو قبول نہیں؟اسرائیلی فورسز کی جانب سے مصر اور رفح کے درمیان سرحدی گزرگاہ بند کیے جانے کے بعد غزہ میں یہ ڈر بڑھ گیا ہے کہ یہ کاروئی رفح میں ایک پر خوف حملے کا پیش خیمہ ہے۔
کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اسرائیل نے امریکی عہدے داروں کو یقین دلایا ہے کہ رفح میں کارروائی انتہائی محدود نوعیت کی ہو گی اور اس کا دورانیہ بھی مختصر ہو گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر نے بھی ہفتہ وار بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا گزشتہ رات رفح کراسنگ پر کنٹرول کے لیے اسرائیلی آپریشن ایک محدود نوعیت کا ہے اور اسرائیل نے آپریشن سے پہلے رفح کے محلوں سے تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو نکل جانے کا حکم بھی دیا تھا۔
میتھیو ملرنے کہا ،"یہ آپریشن شہری علاقوں میں نہیں کیا گیا۔ ہم یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ ہم رفح میں کسی بڑے فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں۔"
دوسری جانب اسرائیل کے وزیر دفاع یواف گیلنٹ نے منگل کو دھمکی دی کہ اگر فلسطینی حدود میں حماس کے قبضے میں موجود یرغمالوں کی رہائی کے لیے معاہدے کی بات چیت ناکام ہوئی تو اسرائیل غزہ میں زیادہ گہرائی تک جا کر آپریشن کرنے کے لیے تیار ہے۔
گیلنٹ نے رفح میں فوجی حملہ شروع ہونے کے بعد وہاں کا دورہ کیا اور اس کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا اسرائیل یرغمالوں کو غزہ سے نکالنے کے لیے سمجھوتوں پر تیار ہے، لیکن اگر یہ آپشن ختم ہو جاتا ہے تو پھر ہم آگے بڑھیں گے اور گہرائی میں جا کر کارروائیاں کریں گے۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے بتایا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے قاہرہ میں مذاکرات کے لیے جانے والے وفود کو ہدایت کی ہے کہ وہ یرغمالوں کی رہائی کے لیے ضروری شرائط پر سختی سے ڈٹے رہیں اور لازمی شرائط میں اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت شامل ہے۔
نئے مذاکرات پیر کو حماس کے اس اعلان کے بعد ہو رہے ہیں جس میں فلسطینی تنظیم نے کہا تھا کہ اس نے ثالثوں مصر اور قطر کی جانب سے تجویز کردہ معاہدہ قبول کر کیا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ اوردیگر حکومتیں غزہ جنگ بندی کے لیےاسرائیل پر دباؤ ڈالیں:یرغمالوں کے خانداناس سے قبل مذاکرات اس لیے ناکام ہوئے تھےکہ حماس نے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا جب کہ نیتن یاہو نے یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ رفح میں موجود حماس کے باقی رہ جانے جنگجوؤں کا خاتمہ کریں گے۔
منگل کے روز اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے اپنی فورسز کو رفح کراسنگ پر قبضہ کرنے کا حکم دیا تھا جس پر چند گھنٹوں میں ہی عمل درآمد ہو گیا اور گراسنگ پر فلسطین کا پرچم اتار کر اسرائیل کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رفح کراسنگ پر قبضہ حماس کی دہشت گردانہ صلاحیتوں کو ختم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
گیلنٹ نے دھمکی دی ہے کہ اگر یرغمال واپس نہ آئے تو اسرائیل اپنی فوجی کاروائیاں غزہ کی پوری پٹی، اس کے جنوب، وسطی اور شمالی علاقوں میں پھیلا دے گا۔
SEE ALSO: اسرائیلی فوج نے مصر سے متصل رفح بارڈر کراسنگ کا کنٹرول سنبھال لیاایک اور خبر کے مطابق حماس کے ایک عہدے دار اسامہ حمدان نے منگل کو خبردار کیا ہے کہ اگر رفح میں اسرائیلی فوجی حملہ جاری رہا تو پھر جنگ بندی کا کوئی معاہدہ نہیں ہو گا۔
حمدان نے یہ دھمکی بیروت میں ایک پریس کانفرنس کے دوران حماس کے ایک وفد کے طور پر دی۔ حمدان کا کہنا تھا کہ ہم یہ یقین دلاتے ہیں اگر اسرائیل رفح میں فوجی آپریشن کرتا ہے تو وہ اسرائیلی فوج کے لیے پکنک جیسا نہیں ہو گا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اب گیند نیتن یاہو کے کورٹ میں ہے اور جس تازہ ترین تجویز پر حماس رضامند ہوا ہے وہ ہمارے لوگوں اور ہماری مزاحمت کے کم ترین مطالبات کی نمائندگی کرتی ہے۔
رفح کراسنگ پر اسرائیلی فوجی قبضے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ رفح کراسنگ خالصتاً مصریوں اور فلسطینیوں کے درمیان ایک سرحدی گزرگاہ تھی اور رہے گی۔
حماس کے مذاکرات کاروں کا گروپ بات چیت کے لیے غزہ سے دوبارہ قاہرہ پہنچ گیا ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے رائٹرز اور اے ایف پی سے کچھ معلومات لی گئیں ہیں)