معاشی بحران، غذائی قلت،آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، وسائل کی قلت اور دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والی جنگیں اور تنازعات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں خاص طور سے پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غریب ملکوں کے لیے معاشی بد حالی کا عفریت قابو سے باہر نظر آتا ہے۔
اور ان ملکوں کی نظریں مدد کے لیے دولت مند ملکوں کی طرف اٹھتی ہیں لیکن ان کی باہمی رقابتیں ، غریب ملکوں کی خاطر خواہ مدد کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ خاص طور پر امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی غریب اور ضرورت مند ملکوں کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے ۔ کیونکہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تناؤ سے پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوتی ہے جس کا سب سے زیادہ منفی اثرات غریب اور ضرورت مند ملکوں پر پڑتے ہیں۔
امریکہ کی کامرس سیکریٹری جینا ریمانڈو کے چین کے دورے کو ایک اچھی خبر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بیجنگ میں دو روز سے ان کی چینی لیڈروں کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی اور چینی عہدیداروں نے دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات میں بہتری آنے کی توقع ظاہر کی ہے۔
SEE ALSO: دس لاکھ تبتی بچوں کو والدین سے الگ کرنے کا الزام، امریکہ کی چینی حکام پر ویزا پابندیاںچینی وزیر اعظم لی چیانگ نے ریمانڈو کو بتایا کہ کہ مستحکم اقتصادی تعلقات اور تجارتی تعاون نہ صرف چین اور امریکہ کے لیے بلکہ مجموعی طور پر پوری دنیا کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
ریمانڈو نے کہا کہ امریکہ، چین کے ساتھ اپنا تجارتی تعلق برقرار رکھنا چاہتا ہے، اور امید کرتا ہے کہ یہ تعلقات ، مجموعی تعلقات کو استحکام فراہم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا ہم سے توقع کرتی ہے کہ ہم مل کر ان مسائل حل کریں جو آج دنیا کو درپیش لیں۔
SEE ALSO: کیا ڈالر کے مقابلے پر کوئی متبادل کرنسی لانا ممکن ہے؟چین کے وزیر تجارت وانگ وینٹاؤ سے ملاقات کے بعد ریمانڈو نے کہا کہ دونوں ملک ایک ورکنگ گروپ قائم کریں گے جس میں تجارتی نمائندے بھی شامل ہو ں گے۔ یہ ورکنگ گروپ تجارتی مسائل اور سرکاری سطح پر اطلاعات کے تبادلے پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا تاکہ برآمدی کنٹرول سے متعلق مسائل پر توجہ دی جا سکے۔
تاہم امریکی ایوان نمائندگان کی فارن افئیرز کمیٹی کے چیرمین مائیکل میکال نے چین کے ساتھ ایک ورکنگ گروپ شروع کرنے کے لیے بائیڈن حکومت پر نکتہ چینی کی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے چین اور امریکہ تعلقات میں کشیدگی رہی ہےجس کا دونوں ملکوں کی تجارت پر منفی اثر پڑا ۔ بعض ماہرین اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔