امریکہ کے محکمہ خارجہ نے چین پر وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا ہے۔
اس کے جواب میں بیجنگ نے اپنی ایک رپورٹ جاری کی جس میں اس نے امریکہ کے ’’ابتر ہوتے ہوئے‘‘ انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کی ہے۔
محکمۂ خارجہ کی جانب سے چین کے خلاف الزامات دنیا بھر میں انسانی حقوق کی حالت زار پر کانگریس کے حکم سے تیار کی جانے والی سالانہ رپورٹ کا حصہ ہیں۔ اس رپورٹ میں 2014ء کا احاطہ کیا گیا ہے۔
چین کے لیے مختص 148 صفحات میں جن مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے ان میں سرگرم کارکنوں اور حکومت کے ناقدین کی حراست، نسلی اقلیتوں کے خلاف جبر، ریاستی سنسرشپ اور کمیونسٹ پارٹی میں وسیع پیمانے پر بد عنوانی شامل ہیں۔
ہر سال کی طرح، چین نے اس پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ’’بندوقوں کی وسیع پیمانے پر دستیابی اور بار بار ہونے والے پرتشدد جرائم کا شکار ہے، جو شہریوں کے شہری حقوق کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں خفیہ ادارے ’سی آئی اے‘ کی جانب سے مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف ’’بیہمانہ تشدد‘‘، حکومت کے نگرانی کے پروگراموں، پولیس افسروں کی جانب سے ’’تشدد کے بےجا استعمال‘‘ اور ’’نسلی اقلیتوں کے خلاف دستوری امتیاز‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔
دونوں رپورٹیں جاری ہونے سے چند دن قبل امریکی اور چینی حکام کے درمیان واشنگٹن میں سالانہ مذاکرات ہوئے، جن کے بعد دیے جانے والے بیانات میں زیادہ تر توجہ تنقید کی بجائے دوطرفہ تعاون پر مرکوز رکھی گئی۔
چین طویل عرصہ سے اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر امریکہ کی تنقید کے خلاف یہ کہہ کر شکایت کرتا رہا ہے کہ اس طرح کے بیانات چین کے داخلی معاملات میں نامناسب مداخلت کے مترادف ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کے معیارات کا پابند نہیں کیا جانا چاہیئے۔