|
امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے 16 نومبر کو ہونے والی اپنی آخری ملاقات میں چین کے قائد شی جن پنگ نے نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے، تعاون برقرار رکھنے اور اختلافات دور کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا تھا۔
بائیڈن نے امریکہ اور چین کے تعلقات کو دنیا کا اہم ترین تعلق قرار دیا اور اپنا دیرینہ مؤقف دہرایا کہ دونوں ممالک کی مسابقت کسی تنازع میں تبدیل ہونے نہیں دے سکتے۔
یہ عہدو پیمان اپنی جگہ، جب وی او اے نے لیما، پرو میں ایشیا پیسیفک اکنامنک کو آپریشن اجلاس کی راہ داریوں میں بائیڈن اور شی کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کا قریب سے جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ چینی اقدامات سے متعلق شی جن پنگ کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔
سائبر تھریٹ
شی سے ملاقات میں بائیڈن نے چین کی ریاستی پشت پناہی سے ہونے والے ایسے سائبر حملوں پر ’’گہرے تحفظات‘‘ کا اظہار کیا جن میں ’’سویلین انفرا اسٹرکچر کو ہدف بنایا جاتا ہے اور امریکی سلامتی اور تحفظ کے لیے خطرے کا باعث ہے۔‘‘
جواب میں شی نے کہا کہ ان ’’غیر منطقی دعوؤں‘‘ کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ یہ سائبر اٹیک ‘‘چین سے‘‘ کیے جا رہے ہیں۔
تاہم گزشتہ کئی برسوں کے دوران امریکی انٹیلی جینس اور سیکیورٹی ماہرین ایسے سائبر حملوں کا سراغ لگا چکے ہیں جن کے ڈانڈے بیجنگ سے ملتے ہیں۔ خطرات کا باعث بننے والے ایکٹرز نہ صرف چینی ریاست سے منسلک ہوتے ہیں بلکہ انہیں ریاست کنٹرول کرتی ہے۔ چین اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ٹیلی کمیونی کیشن فرمز اور پروائڈرز کو بھی استعمال کرتا ہے۔
آفس آف دی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جینس کی 2024 کی خطرات سے متعلق جائزہ رپورٹ میں چین کو ’’امریکی حکومت، نجی شعبے اور حساس انفرا اسٹرکچر نیٹ ورکس کے لیے سب سے فعال اور مستقل سائبر تھریٹ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں ’’پی آر سی آپریشنز‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں ممکنہ طور پر گوام پر سائبر حملوں کے عزائم کی نشاندہی کی گئی ہے۔ گوام مغربی پیسیفک کا ایک جزیرہ ہے جو تائیوان سے نزدیک ترین امریکی علاقہ ہے۔
سن 2024 میں مائیکرو سافٹ کی ڈیجیٹل ڈیفینس رپورٹ میں کہا گیا ہے’’ تائیوان پر کنٹرول کے لیے بیجنگ کے طویل المعیاد ہدف کی وجہ سے‘‘چینی تھریٹ ایکٹرز کے تائیوان کی انٹرپرائزز کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
جولائی 2021 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے الزام عائد کیا تھا کہ بیجنگ مائیکرو سافٹ ایکسچینج کے ای میل سرور سافٹ ویئر پر سائبر حملوں اور رینسم ویئر کے دیگر حملوں کی سہولت کاری کر رہا ہے۔
رواں ماہ ایف بی آئی اور یو ایس سائبر سیکیورٹی اینڈ انفرا اسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی نے انکشاف کیا تھا کہ چینی ریاست سے منسلک ایکٹرز امریکہ میں ٹیلی کمرشل کمیونی کیشن کے انفراسٹرکچر کے خلاف ’’وسیع اور غیر معمولی سائبر جاسوسی مہم‘‘ چلا رہا ہے۔
بیجنگ کے امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے انفلوئنس آپریشنز میں بھی شدت دیکھی گئی۔
SEE ALSO: چین: روس کی جنگی کوششوں سے روابط کے الزام پر چینی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کی مخالفتیوکرین
یوکرین پر روس کے حملے کو ایک ہزار دنوں سے زائد عرصہ ہو گیا ہے اور بائیڈن نے ’’روس کی دفاعی صنعت کے لیے جاری‘‘ بیجنگ کی حمایت پر تنقید کی۔
شی کا کہنا تھا کہ چین ’’امن کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا‘‘ اور دعویٰ کیا کہ بیجنگ کا ’’یوکرین مسئلے پر مؤقف اور اقدامات ہمیشہ شفاف اور دیانت دارانہ رہا ہے۔‘‘
تاہم نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) چین کو روس کے لیے یوکرین میں جاری جنگ کے سہولت کار کے طور پر دیکھتی ہے۔
چین نے روس کے ساتھ اپنی ’لامحدود دوستی‘ کے ذریعے ماسکو کو اس کی جنگ میں سفارتی حمایت اور ہتھیار سازی کی صلاحیت بڑھانے میں غیر معمولی مدد فراہم کی ہے۔
امریکہ کے مطابق چین کی جانب سے روس کو ہتھیاروں میں استعمال ہونے والی مشینری اور ٹیکنالوجی کی فروخت میں اضافے سے جنگی ساز وسامان کی تیاری بڑھی ہے اور جسے ماسکو یوکرین میں استعمال کر رہا ہے۔
امریک کی ڈی کلاسیفائی کی گئی خفیہ اطلاعات کے مطابق 2023 کے دوران روس میں تیار کیے گئے میزائلوں، ٹینکس اور طیاروں میں استعمال ہونے والی 90 فی صد مائیکرو الیکٹرونکس چین سے لی گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق چین روس کو ممکنہ طور پر بیلسٹک میزائلوں میں استعمال ہونے والے 70 فی صد مشینی آلات فراہم کر چکا ہے۔
اس کے علاوہ چین نے روس کے ساتھ تجارت میں اضافہ کیا ہے اور خاص طور پر تیل اور گیس کی درآمدات بڑھائی ہیں۔ اس کی وجہ سے روس کی کمزور پڑتی معیشت کو نئی قوت ملی ہے اور اس پر مغربی ممالک کی پابندیوں کے اثرات بھی کم ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: تائیوان کے معاملے پر چین اتنا حساس کیوں ہے؟تائیوان
بائیڈن نے شی کو بتایا کہ امریکہ ’’کسی بھی جانب سے اسٹیٹس کو کی یک طرفہ تبدیلی کا مخالف ہے‘‘ اور زور دیا کہ تمام اختلافات پُر امن انداز میں حل کیے جائیں۔ بائیڈن کا یہ مؤقف گزشتہ نصف صدی سے تائیوان پر امریکہ کی پالیسی کا عکاس ہے۔ انہوں نے چین پر تائیوان کے گرد استحکام میں بگاڑ کا باعث بننے والی چین کی فوجی سرگرمیاں ختم کرنے پر بھی زور دیا۔ بیجنگ تائیوان کو طاقت کے زور پر حاصل کرنے کا عندیہ دیتا رہا ہے۔
چین تائیوان کو اپنی ریڈ لائن قرار دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ جمہوری طور پر خود مختار حکومت والے اس جزیرے پر چین کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے۔ شی امریکہ پر زور دیتے آئے ہیں کہ وہ تائیوان کی آزادی کی مخالفت کرے اور چین میں اس کے پرامن انضمام کی حمایت کرے۔
بیجنگ تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے لیکن وہ اکثر چین کی جغرافیائی سالمیت سے متعلق اپنے 'ون چائنا' پرنسپل کو امریکہ کی 'ون چائنا' پالیسی کے ساتھ الجھا دیتا ہے۔
امریکہ اگرچہ چین کے اس دعوے کو تسلیم کرتا ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے اور بیجنگ کو ’’چین کی واحد قانونی حکومت‘‘ تسلیم کرتا ہے لیکن اس میں تائیوان کی حیثیت پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کیا گیا ہے۔
تائیوان کی جانب سے فضائی مداخلت، دھمکی آمیز پراپیگنڈے اور تائیوان پر حملے کی جنگی مشقوں میں اضافے سے چین کی جانب بڑھتی ہوئی جارحیت کا اظہار ہوتا ہے۔ امریکہ تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت کے لیے اربوں ڈالر کی مںظوری دے چکا ہے۔
چین کہتا ہے کہ یہ اقدامات اس کی سالمیت کے برخلاف ہیں اور خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں اور امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ تائیوان کے صدر لائی چنگ تے کی ’’حقیقی فطرت‘‘ کو دیکھے، جنھیں بیجنگ علیحدگی پسند قرار دیتا ہے۔
لائی کہہ چکے ہیں کہ تائیوان کے لوگوں کو اپنا مستقبل طے کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ متعدد بار مذاکرات کی پیش کش کر چکے ہیں جسے بیجنگ مسترد کرتا آیا ہے۔
SEE ALSO: چین میں پُرتشدد حملوں کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟انسانی حقوق
چین نے ’’جمہوریت اور انسانی حقوق‘‘ کو اپنی ’’ریڈ لائنز‘‘ میں شامل کیا ہے جو دراصل ان تصورات کے معروف مفہوم کو از سر نو متعین کرنے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی یا سی سی پی کی حکمرانی اور خلاف ورزیوں پر ہونے والے تنقید کو دبانے کی دیرینہ کوششوں کا حصہ ہے۔
بیجنگ کا مؤقف رہا ہے کہ انسانی حقوق ’’ہر ملک کے اعتبار سے مختلف‘‘ ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی اصرار کرتا ہے کہ چین ’’حقوقِ انسانی کے آفاقی منشور‘‘ یا یو ڈی ایچ آر کا پابند ہے۔
تاہم سی سی پی یو ڈی ایچ آر میں فراہم کیے گئے حقوق اور آزادیوں کی منظم طریقے سے پامالی کرتی ہے۔ خاص طور پر ’’سوچنے سمجھنے، ضمیر اور مذہب کی آزادی‘‘ اور ’’آزادیٔ اظہار، اجتماع اور پرائیویسی‘‘ جیسے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور میں کہا گیا ہے کہ کسی کو ’’غلام نہیں بنایا جائے گا یا غلامی میں نہیں رکھا جائے گا۔‘‘
کثیر شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چین شمال مغربی سنکیانگ خطے میں ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کو جبر کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کے اقدامات میں اجتماعی نگرانی، نظری بندی، جبری نس بندی، تشدد، جنسی تشدد، جبری مشقت، مذہب پر پابندیاں عائد کرنے سمیت ان کی ثقافی شناخت مٹانے کے حربے شامل ہیں۔
بیجنگ اسی طرح تبت کے خودمختار خطے میں بھی منظم جبر اور ثقافتی شناخت مسخ کرنے میں مصروف ہے۔