امریکہ کی اقوام متحدہ میں تعینات سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا ہے کہ وہ چین کے دنیا کے سب سے بڑی سفارتی فورم پر بقول ان کے منفی اثر و رسوخ کو لگام ڈالنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کو بتاتے ہوئے الزام لگایا کہ چین جارحانہ انداز میں دباؤ کی پالیسی اپنا کر اقوام متحدہ میں اپنی طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔
سفیر لنڈا گرین فیلڈ نے قانون سازوں کو بتایا کہ چین کثیرالجہتی سفارتی فورم پر بقول ان کے آمرانہ طریقہ کار کو ہوا دے رہا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے نشاندہی کی کہ چین کے شہری اقوام متحدہ کی تین اہم تکنیکی تنظیموں کی قیادت کر رہے ہیں اور بیجنگ نے عالمی وبا کے دوران کووڈ نائنٹین سے بچاؤ کی ویکسین پر سفارت کاری کے ذریعہ کم آمدنی والے ممالک پر دباؤ ڈالا ہے۔
امریکی سفیر نے کہا کہ امریکہ ان کوششوں کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرے گا۔
انہوں نے قانون سازوں سے کہا کہ وہ اقوام متحدہ میں امریکی سرمایہ کاری کی حصلہ افزائی کریں تاکہ سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں عالمی فورم پر کم ہونے والے امریکی اثر و رسوخ کو بحال کیا جا سکے۔
SEE ALSO: اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی نئی سفیر لنڈا تھامس کی سینیٹ سے توثیقلنڈا گرین فیلڈ نے بتایا کہ امریکہ کے مدمقابل اور حریف ممالک اقوام متحدہ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور امریکہ کو بھی ان سے مقابلہ کرنے کے لیے ایسا ہی کرنا ہو گا۔
کانگریس کی سماعت کے دوران چالیس سے زیادہ اراکین نے امریکی سفیر سے
صدر بائیڈن کی اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے کی پالیسی کے متعلق سوالات کیے۔ کئی ممبران نے چین کے صوبے سنکیانگ میں سرکار کی طرف سے ایغور مسلم آبادی کے خلاف ڈھائے گئے مظالم پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
یاد رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے چین پر الزام لگایا ہے کہ اس نے دس لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں محصور کر رکھا ہے۔
جب کہ بیجنگ کا کہنا ہے کہ جس جگہ پر ایغور مسلمانوں کو رکھا گیا ہے وہ تعلیمی تربیتی ادارے ہیں جن کا مقصد مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حملوں کو روکنا ہے۔
ایوان کے نمائندہ مائیکل مکال کے ایک سوال پر سفیر لنڈا گرین فیلڈ نے ان سے اتفاق کیا کہ چین ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سفیر نے کہا کہ چین انسانوں کے خلاف جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس ضمن میں امریکہ نے کھل کر اس پر تنقید کی ہے۔
قانون سازوں نے عالمی ادارہ صحت پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا جب کہ بعض ممبران نے الزام لگایا کہ بیجنگ کے اثر کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت عالمی وبا کے متعلق دنیا کو صحیح طور پر خبردار کرنے میں ناکام رہا ہے۔
امریکی سفیر نے کہا کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ عالمی وبا کے پھوٹنے کی ابتدا کی شفاف اور بھرپور تحقیق کروانا چاہتی ہے۔
عالمی ادارے کی تحقیق کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آزاد ارکان پر مشتمل کمیٹی، جس میں لائبیریا کے سابق صدر اور نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم شامل ہیں، ادارے کی کرونا وبا کے خلاف کارکردگی کا جائزہ لے رہی ہے اور انہیں یقین ہے کہ وہ اس بات کی تہہ تک پہنچیں گے۔
تائیوان کی اقوام متحدہ میں شرکت کے حوالے سے قانون ساز مارک گرین کے سوال کے جواب میں سفیر گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ تائیوان کی حمایت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی غیرمعمولی جمہوریت کی وجہ سے تائیوان کو سراہا جائے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ تائیوان کی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی جیسے پروگراموں میں شرکت کی حمایت کرتا ہے کیونکہ ان پروگراموں میں شریک ہونے کے لیے تائیوان کا عالمی تنظیم کا ممبر ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
لنڈا تھامس گرین فیلڈ امریکی محمکہ خارجہ میں سفارت کاری کا 35 برس کا طویل تجربہ رکھتی ہیں جس کی بنا پر انہیں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں اقوام متحدہ کے لیے امریکہ کی سفیر اور کابینہ کے ممبر کے طور پر منتخب کیا گیا۔