وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا ہے کہ امریکہ، چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نئے زاویے سے دیکھ رہا ہے۔ ترجمان نے پیر کے روز معمول کی بریفنگ کے دوران کہا کہ حالیہ برسوں میں ہم نے چین کو ملک کے اندر اور باہر سخت گیر رویہ اپناتے دیکھا ہے اور چین اب ہماری سلامتی، خوشحالی اور اقدار کو چیلنج کر رہا ہے، جس کی وجہ سے چین کے ساتھ تعلقات کو نئے زاویے سے دیکھنا ضروری ہو گیا ہے۔
جین ساکی کے اس بیان سے چند گھنٹے قبل چین کے صدر شی جن پنگ نے عالمی اقتصادی فورم سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے دنیا کے ملکوں پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں اور صحت عامہ کے سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون بڑھائیں۔
انہوں نے اپنی تقریر میں امریکہ کا نام لیے بغیر چین اور امریکہ کے درمیان جاری تنازع کے بارے میں بھی خبردار کیا۔ چینی صدر نے کہا کہ کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا بین الاقوامی برادری کی اولین ذمہ داری ہے۔
چینی صدر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی سے متعلق ٹیم جمہوریت کی بقا اور چین سمیت مطلق العنان حکومتوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی وضع کر رہی ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ منقسم دنیا انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا مل کر مقابلہ نہیں کر سکتی اور محاذ آرائی دنیا بھر کے لوگوں کو بند گلی کی جانب لے جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں یعنی امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات خراب ترین سطح پر ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، فائیو جی ٹیکنالوجی، انسانی حقوق اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے کشیدگی جاری ہے۔
امریکہ چین پر املاک دانش کے حقوق کی چوری اور صنعتی شعبے میں جاسوسی کے الزامات عائد کرتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ چین کی تین ٹیلی کمیونی کیشنز کمپنیوں کو نیویارک سٹاک ایکسچینج سے ڈی لسٹ کرنے پر غور کر رہی ہے۔
سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ ہفتے چین کی کمیونسٹ پارٹی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ سنکیانگ صوبے میں ویغور مسلمان اقلیت کے قتل عام میں ملوث ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ چین سے متعلق امریکہ کی نئی پالیسی کے تحت چین کے خلاف نئی تادیبی کارروائیوں کا آغاز ہو سکتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پیر کے روز وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ کی جامع حکمت عملی کے مطابق چین کو غیر منصفانہ اور غیر قانونی اقدامات کا ذمہ دار ٹھیرایا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ چین امریکی ٹیکنالوجی کو اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرنے اور انسانی حقوق کی پامالی کے اقدامات کیلئے استعمال نہ کر سکے۔
چین ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔ واشنگٹن میں چینی سفارت خانے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ چین امریکہ سے توقع رکھتا ہے کہ وہ تنازعات اور محاذ آرائی سے بچتے ہوئے باہمی احترام پر مبنی تعلقات استوار کرے گا جن کا مقصد تعاون بڑھانا اور اختلافات کو ختم کرنا ہو گا۔