امریکہ اور چین کے حکام کے درمیان منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس کے دوران دونوں وفود کے درمیان تلخ کلامی اور الزامات کا تبادلہ ہوا ہے۔
صدر جو بائیڈن کے دورِ صدارت میں چین کے ساتھ یہ پہلا اعلیٰ سطح کا اجلاس ہے جس کی میزبانی امریکہ ہی کر رہا ہے۔
ریاست الاسکا میں ہونے والے دو روزہ اجلاس کے پہلے روز جمعرات کو امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے امریکہ کی نمائندگی کی جب کہ چین کے وفد کی قیادت بیجنگ کے اعلیٰ سفارت کار یانگ جیایچی اور اسٹیٹ قونصلر وانگ یی نے کی۔
کیمروں کی موجودگی میں ہونے والے اجلاس کے ابتدائی سیشن کے دوران امریکی وفد کی جانب سے چین پر اجلاس کے پروٹوکولز کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ "ہم چین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر تحفظات رکھتے ہیں اور آج اس پر بات کریں گے۔"
اُن کے بقول امریکہ کو سنکیانگ، ہانگ کانگ اور تائیوان سے متعلق پالیسیوں اور سائبر حملوں کے علاوہ اپنے اتحادیوں پر معاشی دباؤ ڈالنے جیسے چین کے اقدامات پر تحفظات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین کے یہ تمام اقدامات عالمی استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مذاکرات کے دوران چینی سفیر نے کہا کہ امریکہ کو اس خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں کہ چین کسی معاملے پر کوئی سمجھوتہ کرے گا۔
چینی سفیر امریکی وفد کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات پر 15 منٹ تک بولتے رہے۔ انہوں نے جوابی الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنی عسکری اور معاشی طاقت کے زور پر دوسرے ملکوں کو دباتا ہے۔
انہوں نے امریکہ کی جمہوریت اور اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ سمیت امریکہ کی خارجہ اور معاشی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
یانگ نے مزید کہا کہ "میں اپنے ملک کے نمائندوں کے سامنے یہ بات کہتا ہوں کہ امریکہ اس بات کا اہل نہیں کہ وہ یہ کہے کہ واشنگٹن بیجنگ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ گزشتہ 20 یا 30 برسوں کے دوران بھی امریکہ میں یہ اہلیت نہیں تھی کیوں کہ چین کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔"
اجلاس کے دوران امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ امریکہ چین کے ساتھ کسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہتا۔ لیکن وہ اپنے اصولوں اور دوستوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہنے والے اجلاس کا ابتدائی سیشن میڈیا کے کیمروں کی موجودگی میں ہوا لیکن دونوں وفود کمرے میں موجود صحافیوں کے باہر جانے کا انتظار کرتے رہے۔
دونوں وفود کے درمیان ہونے والی گفتگو کے حوالے سے امریکہ کے سینئر حکام نے بعدازاں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ چین اجلاس کے ابتدا میں ہی پہلے سے طے شدہ پروٹوکول کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ منصوبے کے تحت چین کے حکام کے ساتھ اپنی ملاقات جاری رکھے گا۔
یاد رہے کہ صدارت کا منصب سنبھالنے سے قبل جو بائیڈن الزام عائد کیا کرتے تھے کہ ٹرمپ انتظامیہ چین کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران ری پبلکنز صدر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر چین کا مقابلہ کریں۔
امریکی حکومت کا مؤقف ہے کہ چینی حکام سے ملاقات سے قبل وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا دورۂ ایشیا اور دیگر اتحادیوں سے رابطہ اس جانب اشارہ ہے کہ امریکہ چین کے خلاف اپنے اتحاد کو مضبوط کر رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمعرات کو بات چیت کے دوران دونوں ملکوں کے وفود کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ البتہ جمعے کی شام دونوں وفود کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور ہو گا۔
الاسکا میں منعقدہ اجلاس سے قبل امریکہ نے بیجنگ سے متعلق مختلف احکامات جاری کیے تھے جن میں چین کے ٹیلی کام لائسنس کی منسوخی کے علاوہ چینی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپینوں کو قومی سلامتی سے متعلق تحفظات پر مبنی نوٹسز اور ہانگ کانگ کی جمہوریت میں رخنہ ڈالنے پر پابندیوں لگانا شامل ہے۔
چینی سفیر نے اینٹنی بلنکن سے سوال کیا کہ اجلاس سے قبل اس طرح کی پابندیاں لگانے کا کیا مقصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم امریکہ کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ہمارے خیال میں امریکہ کو سفارتی پروٹوکولز پر لازمی عمل درآمد کرنا چاہیے۔"
یانگ نے کہا کہ چین اپنے اندرونی معاملات میں امریکہ کی مداخلت کی مخالفت کرے گا۔ امریکہ کو اپنے مسائل حل کرنا چاہیئیں اور چین کو اپنے۔
امریکہ کا مؤقف ہے کہ وہ چین کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے لیکن ایسا تب ہو گا جب وہ امریکہ کے مفاد میں ہو گا۔
وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اجلاس کے دوران کہا کہ امریکہ پرامید ہے کہ چین اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکے گا۔