’نشاندہی کیے جانے والے شواہد، اِس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہیں کہ پچھلے 50 برس کے دوران، ہونے والی انسانی سرگرمیاں ہی بنیادی طور پر عالمی درجہٴحرارت میں اضافے کا باعث بنیں‘
واشنگٹن —
ایک تازہ ترین امریکی رپورٹ میں ملک کے درجہٴحرارت میں اضافے، سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور خشک سالی میں اضافے، سیلاب اور دیگر موسمی شدت کی وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے، جو معاملہ ’موسمیاتی تبدیلی‘ کے زمرے میں آتا ہے۔
’قومی موسمیاتی جائزہ 2014ء ‘کے نام سے منگل کو جاری ہونے والی اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ، ’اِس صدی کے دوران اور آئندہ، ملک بھر میں موسم کی تبدیلی کے اثرات مزید نقصاندہ ثابت ہو سکتے ہیں‘۔
اور، اِس میں کہا گیا ہے کہ ’کوئی اور نہیں، ہم خود اِس کے ذمہ دار ہیں‘۔
اِس وفاقی مطالعاتی جائزے میں کئی طرح کے شواہد بیان کیے گئے ہیں، جو، رپورٹ کے الفاظ میں،’ اِس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہیں کہ پچھلے 50 برس کے دوران، نمودار ہونے والی انسانی سرگرمیاں ہی بنیادی طور پر عالمی درجہٴحرارت میں اضافے کا باعث بنیں‘۔
تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب بھی اقدام کا وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔
اِس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ موسمیاتی تبدیلی کی شرح کا دارومدار اِس بات پر ہوگا کہ بحیثیت ِمعاشرہ ہم مضر گیس کے اخراج سے متعلق معاملے میں کیا اقدام کرتے ہیں۔
تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کو محدود کرنے کی موجودہ کوششیں، جن کا خصوصی طور پر باعث جلتا ہوا کوئلہ، تیل اور گیس ہے، ’برآمد ہونے والے منفی نوعیت کے سماجی، ماحولیاتی اور معاشی نتائج کو رفع کرنے کے لیے ناکافی ہیں‘۔
اِس رپورٹ کو بنیاد بناتے ہوئے، اوباما انتظامیہ موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں فوری اقدام کا مطالبہ کر رہی ہے، جو معاملہ کانگریس میں تعطل کا شکار رہا ہے۔
یہ جائزہ 300 سے زائد ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم نے تیار کیا، جس کے لیے راہنمائی امریکی محکمہٴتجارت کی طرف سے قائم کردہ 60 رکنی وفاقی مشاورتی کمیٹی نے فراہم کی۔
مطالعے میں سات شعبہ جات میں موسماتی تبدیلی کے اثرات کو مدِ نظر رکھا گیا: جس میں انسانی صحت، پانی، توانائی، باربرداری کے ذرائع، زراعت، جنگل اور ’اِکو سسٹمز ‘شامل ہیں۔
غذائی وسائل کے تحفظ کو لاحق چیلنج، پینے کے پانی کا گرتا ہوا معیار اور امراض کے بڑھتے ہوئے خدشات، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق چند مسائل ہیں جِن کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔
مکمل رپورٹ کا معالعہ کرنے کے لیے، ملاحظہ فرمائیے: ڈبلیوڈبلیوڈبلیو ڈاٹ گلوبل چینج ڈاٹ گو۔
’قومی موسمیاتی جائزہ 2014ء ‘کے نام سے منگل کو جاری ہونے والی اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ، ’اِس صدی کے دوران اور آئندہ، ملک بھر میں موسم کی تبدیلی کے اثرات مزید نقصاندہ ثابت ہو سکتے ہیں‘۔
اور، اِس میں کہا گیا ہے کہ ’کوئی اور نہیں، ہم خود اِس کے ذمہ دار ہیں‘۔
اِس وفاقی مطالعاتی جائزے میں کئی طرح کے شواہد بیان کیے گئے ہیں، جو، رپورٹ کے الفاظ میں،’ اِس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہیں کہ پچھلے 50 برس کے دوران، نمودار ہونے والی انسانی سرگرمیاں ہی بنیادی طور پر عالمی درجہٴحرارت میں اضافے کا باعث بنیں‘۔
تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب بھی اقدام کا وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔
اِس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ موسمیاتی تبدیلی کی شرح کا دارومدار اِس بات پر ہوگا کہ بحیثیت ِمعاشرہ ہم مضر گیس کے اخراج سے متعلق معاملے میں کیا اقدام کرتے ہیں۔
تاہم، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی سطح پر گرین ہاؤس گیسز کو محدود کرنے کی موجودہ کوششیں، جن کا خصوصی طور پر باعث جلتا ہوا کوئلہ، تیل اور گیس ہے، ’برآمد ہونے والے منفی نوعیت کے سماجی، ماحولیاتی اور معاشی نتائج کو رفع کرنے کے لیے ناکافی ہیں‘۔
اِس رپورٹ کو بنیاد بناتے ہوئے، اوباما انتظامیہ موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں فوری اقدام کا مطالبہ کر رہی ہے، جو معاملہ کانگریس میں تعطل کا شکار رہا ہے۔
یہ جائزہ 300 سے زائد ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم نے تیار کیا، جس کے لیے راہنمائی امریکی محکمہٴتجارت کی طرف سے قائم کردہ 60 رکنی وفاقی مشاورتی کمیٹی نے فراہم کی۔
مطالعے میں سات شعبہ جات میں موسماتی تبدیلی کے اثرات کو مدِ نظر رکھا گیا: جس میں انسانی صحت، پانی، توانائی، باربرداری کے ذرائع، زراعت، جنگل اور ’اِکو سسٹمز ‘شامل ہیں۔
غذائی وسائل کے تحفظ کو لاحق چیلنج، پینے کے پانی کا گرتا ہوا معیار اور امراض کے بڑھتے ہوئے خدشات، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق چند مسائل ہیں جِن کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔
مکمل رپورٹ کا معالعہ کرنے کے لیے، ملاحظہ فرمائیے: ڈبلیوڈبلیوڈبلیو ڈاٹ گلوبل چینج ڈاٹ گو۔