میانمار میں امریکی سفارتخانے نے حکام کی طرف سے تین روز قبل بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی 'روئٹرز' کے دو صحافیوں کو گرفتار کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں سفارتخانے کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد سے 31 سالہ وا لون اور 27س سالہ کیاو سوئی او کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئی اور نہ ہی ان کے خاندانوں کو ان سے ملنے دیا جا رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے جمعہ کو صحافیوں کو بتایا کہ ان کے ملک کو اپنا کام کرتے ہوئے گرفتار ہونے والے صحافیوں سے متعلق تشویش رہتی ہے۔
روئٹرز کے صدر اسٹیفن آڈلر نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کے ادارے کو "آزادی صحافت پر اس حملے" پر "شدید غم و غصہ" ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے بھی میانمار میں صحافیوں کی گرفتاری پر کہا تھا کہ یہ اس ملک میں آزادی صحافت کے سکڑنے کا اشارہ ہے۔ ان کے بقول بین الاقوامی برادری ان صحافیوں کے رہائی کے لیے تمام ممکنہ اقدام کرے۔
یہ دونوں صحافی ریاست راخائن میں فوجی کارروائیوں سے متعلق خبریں مہیا کرتے ہیں۔ یہاں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے باعث سیکڑّوں افراد ہلاک اور لاکھوں بنگلہ دیش میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
اقوام متحدہ ان کارروائیوں کو "نسل کشی کی ایک مثال" قرار دے چکا ہے۔
ان دونوں صحافیوں کو منگل کو دارالحکومت ینگون کے مضافات میں پولیس حکام کے ساتھ ایک رات کے کھانے پر مدعو کیا گیا تھا جس کے بعد سے یہ لاپتا ہیں۔
میانمار کی وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ ان نامہ نگاروں نے "غیر ملکی میڈیا کو فراہم کرنے کے لیے معلومات غیر قانونی طریقے سے حاصل کی تھیں۔"
وزارت نے ان کی ہتھکڑی لگی تصاویر جاری کیں لیکن ان کے بارے میں روئٹرز کو باضابطہ طور پر مطلع نہیں کیا۔
ینگون میں ایک عدالتی عہدیدار کے مطابق ان افراد کو بغیر کسی الزام کے 28 دنوں تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔