امریکی محکمہٴ خارجہ نے ایران میں پُرامن مظاہرین کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، ایسے میں جب یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ گذشتہ دو روز کے دوران ملک کے معاشی مسائل کے خلاف ایران کے شہروں میں ہونے والے احتجاج کے دوران 50 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔
جمعے کے روز ایک بیان میں محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ اُس کی اِن رپورٹوں پر نظر ہے ’’جن میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی شہریوں نے ملک بھر کے شہروں میں ہونے والے متعدد پُرامن احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی ہے‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ایران کے قائدین نے ایک دولت مند ملک کو، جس کی شاندار تاریخ اور ثقافت ہے، معاشی طور پر ایک آوارہ گرد ملک بنا دیا ہے، جس کی اہم برآمدات تشدد، خون خرابہ اور بگاڑ پر مشتمل ہیں‘‘۔
بیان میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’’ایران کے راہنماؤں نے ایک طویل عرصے سے ایرانی عوام کو مشکلات کا شکار بنایا ہوا ہے‘‘۔
امریکی محکمہٴ خارجہ نے زور دیا ہے کہ’’بنیادی حقوق سے متعلق ایرانی عوام کے مطالبات اور بدعنوانی کے خاتمے کے ضمن میں تمام ملکوں کو ایرانی عوام کی کھل کر مدد کرنی چاہیئے‘‘۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے ’’ایرانی عوام کے لیے اپنی گہری حمایت‘‘ کا اعادہ کیا ہے۔
اس سے قبل، جمعے کے روز ایران کے مختلف شہروں میں لوگ جمع ہوئے، جس میں اُنھوں نے ملک کی معیشت اور سرکاری پالیسیوں کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے، اپنی آواز بلند کی۔
ایران کی فارس نیو ایجنسی نے کہا ہے کہ کرمان شاہ کے مغربی شہر میں تقریباً 300 افراد جمع ہوئے، جہاں نومبر میں آنے والے زلزلے میں 600 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مظاہرین اپنی حالت زار کی جانب حکومتی توجہ دلانے کے علاوہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کی طرف حکومت کا دھیان مبذول کرانا چاہتے تھے۔
فارس کی اطلاع کے مطابق، یہ اجتماع پولیس کی جانب سے کی گئی کارروائی کے بعد منتشر ہوا۔
تہران میں، سرکاری سکیورٹی پر مامور ایک اہل کار، محسن ہمدانی نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ جمعے کے دِن پبلک چوک پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں 50 سے بھی کم افراد اکٹھے ہوئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اُن میں سے کچھ کو ‘‘عارضی طور پر گرفتار کیا گیا‘‘ جب اُنھوں نے جانے سے انکار کیا، تب پولیس نے مظاہرین کو سختی سے منتشر کیا۔
ایران کو 12.4 فی صد شرح کی بے روزگاری کا سامنا ہے جب کہ اس کی معیشت جامد ہے اور افراط زر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
مظاہرین نے ایک طویل مدت سے بیرون ملک، خاص طور پر شام میں، ایرانی فوجی اہل کاروں کی تعیناتی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
ایران کے سینئر نائب صدر، إسحاق جہانگیری نے جمعے کے روز بتایا کہ کچھ سیاسی دھڑے معیشت کو بہانہ بنا کر حکومت کے خلاف تنقید کر رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ جنھوں نے یہ احتجاج کی ابتدا کی ہے، عین ممکن ہے کہ یہ تحریک اُن کے قابو سے باہر نکل جائے۔