بائیڈن انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ چین 2019 سے کیوبا میں ایک جاسوسی اڈہ چلا رہا ہے جو بیجنگ کا عالمی سطح پر خفیہ معلومات جمع کرنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کا حصہ ہے۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کو کیوبا سے چین کی جاسوسی اور کچھ عرصے سے پوری دنیا میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کی کارروائیوں کی ایک بڑی کوشش کے بارے میں علم ہوا ہے۔
اہلکار کے مطابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے چینی جاسوسی کارروائیوں کو ناکام کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر دیاہے۔ واشنگٹن سمجھتا ہے کہ اس نے سفارت کاری اور دیگر اقدامات سے اس سلسلے میں کچھ پیش رفت کی ہے۔
چین کے جاسوسی اڈے کی موجودگی کی تصدیق اس وقت ہوئی جب جمعرات کو امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے رپورٹ دی کہ چین اور کیوبا نے ایک الیکٹرانک ایو ڈراپنگ اسٹیشن کے قیام کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین نے مذاکرات کے ایک حصے کے طور پر مالی مشکلات کے شکار کیوبا کو نقد اربوں ڈالر دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائٹ ہاؤس نے ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے جمعرات کو نشریاتی ادارے ’ایم ایس این بی سی‘ سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے وہ پریس رپورٹ دیکھی ہے لیکن یہ درست نہیں ہے۔
ان کے بقول بائیڈن انتظامیہ پہلے دن سے دنیا بھر میں چین کے اثر و رسوخ کی سرگرمیوں کے بارے میں فکر مند ہے۔ یقینی طور پر نصف کرہ اور اس خطے میں اسے بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
’اے پی‘ کے مطابق انتظامیہ کے اہلکار نے کہا کہ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے طے کیا تھا کہ کیوبا سے چینی جاسوسی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر مستقل نظر رکھی جائے البتہ اس میں کوئی نئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
کیوبا کے نائب وزیرِ خارجہ کارلوس فرنانڈس ڈی کوسیو نے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر اس رپورٹ کی تردید کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر جو بائیڈن کی قومی سلامتی کی ٹیم کو انٹیلی جنس کمیونٹی نے جنوری 2021 میں صدر کے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد دنیا بھر میں متعدد حساس چینی کوششوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ کے اہلکار کے مطابق چین اپنے اثرو رسوخ کو بڑھانے کے لیے پیپلز لبریشن آرمی کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر لاجسٹکس، اور انفراسٹرکچر کو وسعت دینے پر غور کر رہا تھا۔
اس سلسلے میں چینی حکام نے بحر اوقیانوس، لاطینی امریکہ، مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا، افریقہ اور ہند-بحرالکاہل تک پھیلے ہوئے مقامات کو نظر میں رکھا۔
’اے پی‘ کے مطابق اہلکار نے بتایا کہ کیوبا میں چین نے 2019 میں اپنے جاسوسی آپریشن کو اپ گریڈ کیا۔
خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان سمیت کئی سیکیورٹی ایشوز پر کشیدگی دیکھی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔