امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا ہے کہ پاک افغان سرحد پر نیٹو کے حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر اسلام آباد کی برہمی جائز ہے، لیکن اُنھوں نے تحقیقات سے قبل اس واقعہ پر معذرت سے انکار کیا ہے۔
برطانوی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ’آئی ٹی وی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں، جو پیر کی شب نشر ہوا، امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس ’’برہمی کی وجہ‘‘ موجود ہے کیوں کہ اس کے فوجیوں کی ہلاکت جن ہتھیاروں سے ہوئی وہ ’’ایک اتحادی کا اسلحہ‘‘ تھا۔
دورہِ لندن کے موقع پر کیے گئے انٹرویو میں جنرل ڈیمپسی نے بتایا کہ وہ چاہیں گے کہ اس واقعہ کی تفصیلات کے تعین تک پاکستانی حکومت برداشت کا مظاہرہ کرے۔
نیٹو طیاروں نے جس علاقے میں پاکستان کی فوجی چوکیوں پر حملہ کیا وہاں بین الاقوامی سرحد کی نشاندہی کا موثر نظام موجود نہیں۔
امریکی افواج نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل اسٹیفن کلارک اس واقعہ کی تحقیقات کر کے 23 دسمبر تک اپنی ابتدائی رپورٹ مرتب کریں گے۔
جنرل کلارک نیٹو، افغان اور پاکستانی نمائندوں سے مل کر اُن اقدامات پر بھی تبادلہ خیال کریں گے جن کی مدد سے مستقبل میں ایسے واقعات سے محفوظ رہا جا سکے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پیر کو امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ کے ساتھ ’’معاملات معمول کے مطابق نہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات کے تسلسل کے لیے باہمی احترام نا گزیر ہے لیکن اس وقت امریکہ ایسا نہیں کر رہا۔
نیٹو اور افغان عہدے داروں کا دعویٰ ہے کہ اُن کی افواج نے پاکستانی چوکیوں کی سمت سے فائرنگ کے بعد فضائی مدد طلب کی، جب کہ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے چوکیوں پر تعینات اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ میں پہل کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو اور افغان حکام بہانے گڑھ رہے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے نے امریکی عہدے داروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ فوجی محققین کا ماننا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں نے امریکی اور افغان اہلکاروں کی مشترکہ گشتی ٹیم پر اس مقصد سے حملہ کیا کہ فائرنگ کا شبہ پاکستانی فوجیوں پر جائے اور ان کے درمیان جھڑپ کا آغاز ہو۔