امریکی ایوانوں میں پاکستان کی افغان اور بھارت پالیسی کے خلاف سوچ مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ 2001ء سے لے کر اب تک پاکستان کو معاشی اور دفاعی امداد کی مد میں دیے جانے والے 33 ارب ڈالر سے امریکہ کو کیا فائدہ ہوا ہے اور یہ کہ آنے والے وقت میں پاکستان کے ساتھ افغانستان اور بھارت سے متعلق معاملات پر کیسے بات چیت کی جائے۔
منگل کو امریکی کانگریس میں ایریزونا سے کانگریس مین میٹ سولومن کی سربراہی میں ایوانِ نمائندگان کی ذیلی کمیٹی برائے خارجہ امور میں ایک سماعت ہوئی جس کا موضوع تھا کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان دوست ہے یا مخالف۔"
سماعت میں جن تین افراد نے اپنے بیانات پڑھے ان میں افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر زلمے خلیل زاد، امریکی محکمہ خارجہ میں بیورو برائے انسدادِ دہشت گردی کی سابقہ عہدیدار ڈاکٹر ٹریشیابیکن اور فاونڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز سے منسلک تجزیہ کار بل روگیو شامل تھے۔
سماعت میں کانگریس مین میٹ سولومن نے تجویز پیش کی کہ اگر پاکستان افغان طالبان اور حقانی گروپ کے ساتھ اپنے تعلقات ختم نہیں کرتا اور اس کی فوج اور آئی ایس آئی ان دہشت گردوں کو ٹھکانے فراہم کرنا بند نہیں کرتی تو کیا ہمیں پاکستان کی ہر قسم کی امداد بند کر دینی چاہیئے تاکہ پاکستان سے ایک مختلف ماحول میں سنجیدگی سے بات چیت کی جا سکے۔
اس کے جواب میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ پاکستان حقانی گروپ کی حمایت کر کے" ریاستی دہشت گردی" کا مرتکب ہو رہا ہے، اس لیے پاکستان کی تمام تر معاشی اور دفاعی امداد بند کر دی جانی چاہیئے تاکہ منفی اثرات کو بڑھایا جا سکے کیونکہ ان کے بقول مثبت اثرات سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔
خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو عالمی مالیاتی اداروں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے پاکستان کو شمالی کوریا کی طرح تنہا کر دینا چاہیئے تاکہ اسے افغانستان میں امن مخالف قوتوں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کیا جا سکے اور فوجی عہدیداروں پر سفری اور معاشی پابندیاں لگا دی جائیں جو دہشت گردوں کی معاونت کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ٹریشا بیکن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سماعت میں پاکستان کی طرف سے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کو نظر انداز کیا گیا جن کا خاتمہ پاکستان اور امریکہ دونوں کے مفاد میں ہے جیسے کہ القاعدہ، پاکستانی طالبان، لشکرِجھنگوی وغیرہ۔
ڈاکٹر بیکن نے کہا کہ پاکستان کی امداد بند کر کے ہم دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف دوطرفہ تعاون کو خراب کر دیں گے۔ ایسا کوئی بھی اقدام افغانستان میں امن کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
بل روگیو نے بھی پاکستان کی تمام تر امداد بند کرنے کی حمایت کی اور کہا کہ پاکستان کی فوج دہشت گردوں کو ابھی بھی افغانستان اور بھارت سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنی حکمتِ عملی کا حصہ سمجھتی ہے۔
اس سوال پر کہ معاشی امداد اور پابندیاں لگانے سے کیا امریکہ گزشتہ پندرہ سال میں پاکستان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو جو تعلیم، صحت، روزگار، انسانی حقوق اور دیگر شعبوں میں حاصل کی گئی ہیں انہیں واپس نہیں دھکیل دے گا ؟ روگیو نے کہا کہ ہمیں یہ بھی طے کرنا ہے کہ کیا واقعی مکمل امداد ان شعبوں میں لگائی گئی ہے اور ہمیں اس سے کیا فائدہ حاصل ہوا ہے۔
سماعت میں کانگریس مین رورا بیکر نے بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندوں کی لڑائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سکیورٹی ادارے وہاں" ماورائے عدالت" کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
سماعت کی یہ کارروائی دیکھنے کے لیے آنے والوں میں بلوچ علیحدگی پسند اور پاکستان کی ایک سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے امریکہ میں کارکنان بھی موجود تھے۔
ایم کیو ایم کے ارکان نے حاضرین اور بیانات دینے والے ماہرین کو پرچے دیے جن میں لکھا گیا تھا کہ کراچی میں نیم فوجی فورس رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مبینہ طور پر مہاجر برادری کے خلاف تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں جن کی پاکستانی فوجی قیادت سے تحقیقات کروائی جائیں۔
اُدھر پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے میڈیا میں آنے والے بعض امریکی کانگریس اراکین اور چند امریکی اہلکاروں کے بیانات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
اُنھوں نے یہ بات جمعرات کو اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات میں کہی۔
وزارت داخلہ کے مطابق چوہدری نثار نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے پاکستان کی سنجیدہ کوششوں پر غیر ضروری نقطہ چینی اور الزام تراشی کی روش مشترکہ مفادات کے حصول کی راہ میں مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔
بیان میں امریکی سفیر کے حوالے سے کہا گیا کہ اُنھوں وزیر داخلہ چوہدری نثار کو آگاہ کیا کہ امریکی حکومت دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ خصوصاً ضرب عضب کی کامیابیوں اور خطے میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرتی ہے۔