’تجارتی بِل کی عدم منظوری، امریکی کارکنان کے لیے نقصاندہ‘

فائل

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ’ٹی پی پی‘ کی مدد سے تجارت کی عالمی رکاوٹوں کو ہٹانے میں مدد ملے گی، نئی منڈیاں میسر آئیں گی، معیشت کو فروغ ملے گا، جب کہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے توازن کوبرقرار رکھنے کے حوالے سے بڑی اہمیت ہوگی

امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ایوانِ نمائندگان کی جانب سے ایسے اقدام کی منظوری میں ناکامی جس کا مقصد عالمی تجارتی معاہدے کے برے اثرات سے امریکی کارکنوں کو بچانا تھا، ’جِس کےباعث تقریباً 100000کارکنوں اور اُن کی برادریوں کو براہِ راست نقصان پہنچ سکتا ہے‘۔

صدر نے یہ بات سنیچر کے روز اپنے ہفتہ وار خطاب میں کہی ہے۔ بقول اُن کے، ’اُن کارکنوں، اُن کے اہل خانہ یا اُن کی برادریوں کی خاطر، میں کانگریس کے ارکان پر زور دیتا ہوں کہ وہ تجارتی اعانت کے حوالے سے تصفیہ طلب معاملات پر غور کے لیے امریکی کارکنوں کی مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں‘۔

صدر کے اولولعزم ’ایشیا بحرالکاہل آزاد تجارتی ایجنڈے‘ کو جمعے کے روز اُس وقت سخت چوٹ لگی جب ایوانِ نمائندگان نے مجوزہ قانون سازی کے اُس حصے کے خلاف ووٹ دیا جس کے تحت اُن کارکنوں کو امداد فراہم ہوتی جو امریکی تجارتی معاہدوں کی زد میں آئے ہوں‘۔
مسٹر اوباما کے ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھی، اور ریپبلیکن ارکان نے مجوزہ بِل کےخلاف 302 جب کہ حق میں صرف 126 ووٹ ڈالے۔

حالانکہ قانون ساز مسٹر اوباما کو نام نہاد ’فاسٹ ٹریک‘ اقدام کا اختیار دیتے دیتے رہ گئے، جس کا مقصد ’ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی)‘ سمجھوتے کے حوالے سے قدم اٹھانا تھا۔ درحقیقت اس مجوزہ بِل کی منظوری کا امکان ہی نہیں رہا تھا۔ اب صدر کے دستخط سے پہلے، قانون سازی کی دونوں جزیات کی منظوری لازم ہے۔
ریپبلیکن قانون سازوں نے کہا ہے کہ منگل کو کارکنوں کی امداد سے متعلق بِل کے حصے پر نئی ووٹنگ کی کوشش کی جائے گی۔

مسٹر اوباما نے ایوان پر زور دیا کہ کارکنان کی امداد کے اقدام کی بغیر کسی تاخیر کے منظوری دی جائے، ’تاکہ میں دونوں اقدام پر دستخط کروں، اور ہمارے کارکنان اور کاروباری اداروں کو پیٹھ پر تھپکی دی جا سکے کہ وہ اپنی کاوشیں جاری رکھیں، بہتر مصنوعات کا سوچیں، ایجادات کریں، تعمیر کا سوچیں اور باقی دنیا کو میڈ اِن امریکہ اشیا فروخت کریں۔‘

متعدد ڈیموکریٹس کو اس بات پر تشویش لاحق ہے کہ بحرالکاہل پار تجارتی ساجھے داری کے معاہدے کی بدولت مزید امریکی روزگار بیرون ملک چلے جائیں گے اور اس سے ماحول کو نقصان پہنچے گا۔
کارکنان کو امداد فراہم کرنے سے متعلق شق ڈیموکریٹ پارٹی کے ارکان کو خوش کرنے کے لیے شامل کی گئی تھی اور جمعے کے روز مسٹر اوباما کیپیٹل ہل گئے تھے، تاکہ وہ اہم ڈیموکریٹ قانون سازوں کو قائل کرنے کی آخری کوشش کر سکیں۔

اس کے باوجود، ایوان میں اقلیتی قائد نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ وہ قانون سازی کی مخالفت کریں گی۔ ووٹنگ کے بعد، ایک بیان میں اُنھوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں جماعتیں امریکی عوام کی بہتری کے لیے نئے معاہدے طے کرنے پر مذاکرات کریں۔

ریپبلیکن پارٹی کی جانب سے، ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر، جان بینر اس اقدام کے حامی تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بل منظور نہ ہونے پر اُنھیں سخت مایوسی ہوئی ہے۔

ٹی ٹی پی کےسمجھوتے کے لیے جو ملک مذاکرات کر رہے ہیں، اُن میں امریکہ، ویتنام، سنگاپور، پیرو، نیوزی لینڈ، میکسیکو، ملائیشیا، جاپان، چلی، کینیڈا، برونائی اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ امریکی قیادت میں ہونے والی اِن کوششوں کا مقصد عالمی معیشت کی تقریباً 40 فی صد پیداوار کے لیے بہتر مواقع تلاش کرنا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ’ٹرانس پیسیفک تجارتی پارٹنرشپ‘ کی مدد سے تجارت کی عالمی رکاوٹوں کو ہٹانے میں مدد ملے گی، جس سے نئی منڈیاں میسر آئیں گی، معیشت کو فروغ ملے گا، جب کہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے حوالے سے اہمیت کے حامل اقدام میں مدد ملے گی۔