شام کے مسئلے پر امریکہ کا روس کے ساتھ فوجی مذاکرات پر غور

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب روس شام میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیر ی نے کہا ہے کہ امریکہ روس کی اس تجویز پر غور کر رہا ہے جس میں شام میں جنگ سے متعلق دونوں ملکوں کے درمیان فوجی سطح کے مذکرات کی بات کی گئی ہے۔

جان کیری کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب روس شام میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔

جان کیری، جنہوں نے اس ہفتے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے فون پر بات کی تھی، نے بدھ کو کہا کہ وہ اس بابت "جامع اور واضح طور پر"جاننا چاہتے ہیں کہ روس کیا عزائم رکھتا ہے"۔

"یہ جاننے کے لیے آپ کو بات چیت کرنی پڑے گی، یہ نہایت ضروری ہے کہ غلط فہمی اور غلط اندزاوں سے بچا جائے (اور) اپنے آپ کو ایسی صورت حال میں نہ ڈالیں جہاں ہم کوئی چیز فرض کر لیں اور پھر وہ مفروضہ غلط ثابت ہو"۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ اس خیال کی حمایت کرتے ہیں اور وائٹ ہاؤس، وزارت خارجہ اور امریکی وزارت دفاع کے عہدیدار اس تجویز کے بارے میں براہ راست وضاحت حاصل کرنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں کہ روس کی طرف سے فوجی موجودگی میں اضافے کے بعد شام میں روس کے حقیقی عزائم کیا ہیں۔

کیری نے کہا کہ انہوں نے ماسکو کی شام میں بڑھتی ہوئی مداخلت پر لاوروف کو متنبہ کیا ہے۔

"میں نے یہ واضح کیا کہ روس کی شامی صدر بشار الاسد کے لیے جاری حمایت سے جنگ کے بڑھنے کا خطرہ ہے اور اس سے انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کا ہمارا مشترکہ مقصد بھی کمزور ہو گا "۔

روس نے ٹینک، فوجی مشیر، تکنیک کار اور سکیورٹی اہلکاروں کو شام بھیجا ہے جس کا بظاہر مقصد ساحلی شہر لاذقیہ میں ایک فضائی اڈا قائم کرنا ہے جو بشار الاسد کا مضبوط گڑھ ہے۔

روس کی آر آئی اے نوستی نیوز ایجنسی نے روس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نکولائی باگدانوسکی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ابھی تک روس کا شام میں فضائی اڈا قائم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ،" کچھ بھی ممکن ہے"۔

روس ایک طویل عرصے سے بشار الاسد کا اتحادی ہے تاہم اس کا کہنا ہے کہ اس کی توجہ شام میں انتہا پسندی کو شکست دینے پر مرکوز ہے۔