ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے پاکستان کے فوجی افسران کے لیے امریکی فوج کے تربیتی اداورں میں تعلیم و تربیت کے مواقع کو خاموشی سے کم کرنا شروع کر دیا ہے، جو کہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک دونوں ملکو ں کی افواج کے باہمی رابطوں کا مظہر تھا۔
امریکی انتظامیہ کی طرف سے باضابطہ طور پر اس اقدام کی تاحال تصدیق نہیں کی گئی؛ اور ناہی پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف اس پر برطانوی خبر رساں ادارے، رائٹرز کی رپورٹ پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق، اس اقدام سے متعلق پہلے کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ تاہم، رپورٹ کے مطابق، یہ اقدام صدر ٹرمپ کی طرف سے رواں سال کے آغاز میں پاکستان کی سیکورٹی معاونت معطل کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے۔
امریکہ کی محکمہٴ دفاع اور پاکستان کی فوج کی طرف سے کوئی براہ راست تبصرہ سامنے نہیں آیا۔ تاہم، دونوں ملکوں کے عہدیداروں نے غیر سرکاری طور پر اس اقدام پر تنقید کی ہے۔
خبر رساں ادارے نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر امریکی عہدیداروں کے حوالے سے کہا ہے کہ اس فیصلے سے باہمی اعتماد سازی کا عمل کمزور ہوگا۔ دوسری طرف، پاکستانی عہدیداروں نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے ان کی فوج اپنے اعلیٰ افسران کی تربیت کے لیے روس یا چین سے رجوع کر سکتی ہے۔
امریکہ کے محکمہٴ خارجہ کے ایک ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ پاکستان کے لیے امریکی حکومت کی بین الاقوامی فوجی تعلیم و تربیت کے پروگرام کی سہولت پاکستان کے لیے معطل ہونے سے رواں سال کے لیے پاکستانی افسران کے لیے مختص کی گئی 66 نشستیں ختم کر دی جائیں گی۔
بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر جسپال نے ہفتہ کو ’وائس امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "حال ہی میں امریکی کانگریس کی طرف سے 2019ء کے لیے دفاعی پالیسی بجٹ سے متعلق منظور ہونے والے بل میں پاکستان کے لیے صرف 15 کروڑ ڈالر کی رقم مختص کی گئی، جو صرف بارڈر سیکورٹی کے لیے فراہم کی جائے گی۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی لیے فوجی امداد و تعاون ختم کر دیا گیا۔ لہٰذہ یہ ٹریننگ اور دیگر پروگرام ختم ہوگئے ہیں"۔
تاہم، ابھی تک یہ واضح نہیں کہ بین الاقوامی فوجی تعلیم و تربیت کے انتظام کار کے باہر امریکہ اور پاکستان کے درمیان باہمی تعاون کا کون سا پروگرام اب بھی جاری ہے۔
پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب نے بدھ کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے تازہ فیصلے سے پاکستان اور امریکہ کی فوج کے باہمی رابطوں کا ایک ذریعہ ختم ہو جائے گا۔
بقول اُن کے، "اگرچہ ان پروگرام کی اہمیت علامتی ہوتی ہے، لیکن اس کی وجہ سے اگر سیاسی تعلقات میں سردمہری بھی آجائے تو دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تعلق اور رابطے بحال رہتے ہیں جو بعض معاملات میں سیکورٹی کے نقطہ نگاہ سے سود مند ہوتے ہیں۔ تو امریکہ نے خود ہی اس تعلق کو ختم کر دیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "اس خطے میں امریکہ کےمفاد کے پیش نظر پاکستان اور امریکہ کی افواج کی درمیان قریبی تعلقات کو برقرار رکھنا نہایت اہم ہیں۔"
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے حالیہ اقدامات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دفاعی شعبوں میں تعلقات کی سطح ماضی کی نسبت کم ہوگئی ہے یا نہیں رہی۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ خطے میں امن و سلامتی کے لیے اور باہمی سیاسی و اقتصادی مفادات کے لیے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان پائیدار رابطوں کو جاری رکھنا ضروری ہے۔