ہاور ڈی گریس امریکی ریاست میری لینڈ کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ اس علاقے کی ایک خاص پہچان لکڑی سے تراشی گئی بطخیں ہیں۔ جنہیں شکاری اپنے شکار کے دوران پرندوں کو جل دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اور یہ بطخیں گھروں اور عمارتوں میں سجاوٹ کے بھی کام آتی ہیں ۔
یہاں رہنے والے دیگر بہت سے لوگوں کی طرح جابزاپنی گزر اوقات کے لیے مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔ مگر اپنے فارغ وقت میں وہ گھر کے ایک حصے میں لکڑی تراشنے کا کام کرتے ہیں۔انکا شماراپنے علاقے میں لکڑی سے بطخیں تراشنے کے ماہر کاری گر وں میں کیا جاتا ہے۔
یہاں شکار کے لیے لکڑی کی بطخیں استعمال کرنے کا اتنا رجحان رہاہے کہ اس علاقے کو لکڑی کی بطخوں کا دارالحکومت کہا جاتا ہے۔
یہاں موجود ایک عجائب گھر میں لکڑی کی تقربیاً ایک ہزار بطخیں رکھی گئی ہیں جو یہاں کے کاری گروں کی مہارت کا ثبوت ہیں۔اس عجائب گھر کی وجہ شہرت لکڑی کی بطخیں ہی ہے۔
جان سولیون عجائب گھر کے منتظم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہر سال یہاں دنیا بھر سے 14ہزار کے قریب سیاح آتے ہیں۔
http://www.youtube.com/embed/AUjoeikyTLU
سولیون کا کہنا ہے کہ لکڑی کی بطخیں بنانے کا آغاز انیسویں صدی کے وسط میں اس وقت ہوا جب شکاریوں نے شکار کے لیے انہیں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ شکار کے وقت لکڑی کی دوسو سے پانچ سو بطخوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ چنانچہ ان کی طلب بڑھنے سے علاقے میں کاریگروں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
1935ءمیں دوران ِ شکار لکڑی سے بنی ان بطخوں کے استعمال پر پابندی کے بعد ان کی مانگ میں کمی ہوئی۔ جس کے بعد لکڑی کے بنے یہ پرندے امریکی لوک تہذیب کا حصہ بن گئے۔
باب جابز کہتے ہیں کہ لوگ لکڑی سے بنے یہ پرندے خریدتے تھے جن سے ہمیں اچھی خاصی آمدنی ہوتی تھی ۔ مگر اب معاشی صورتحال کے باعث یہ کام مشکل ہوتا جا رہاہے۔
اس علاقے میں آپ کو ریسٹورنٹس سے لے کر دکانوں اور گھروں تک ہر جگہ لکڑی کے یہ پرندے دکھائی دیں گے۔
جینی ونسنٹی 17 سال سے اپنی دکان پر لکڑی کی بطخیں بیچ رہی ہیں، اور ان کے شوہر لکڑی کے کاری گر ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ہمارے زیادہ تر گاہک مقامی افراد ہیں جو لکڑی کے بنے ان پرندوں سے واقف ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ باہر سے آنے والے کسی سیاح کو نہ معلوم ہو کہ لکڑی کا یہ پرندہ کیا ہے، مگر جب وہ دکان میں داخل ہوتے ہیں تو اس کی تعریف ضرور کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لکڑی کے ایک پرندے کی قیمت پچاس ڈالر سے کئی ہزار ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ انہیں امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مقامی نوجوان اس پیشے میں دلچسپی لیں گے اور اپنے علاقے کی اس روایت کو زندہ رکھیں گے۔