امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر کا افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ

صدر اوباما کی طرف سے افغانستان میں 2016ء کے بعد بھی اضافی فوجی تعینات رکھنے کے اعلان کے بعد وزیر دفاع ایش کارٹر امریکہ کے دوسرے اعلیٰ عہدیدار ہیں جنہوں نے افغانستان کا دورہ کیا۔

امریکہ کے وزیر دفاع ایش کارٹر منگل کو غیر اعلانیے دورے پر افغانستان پہنچے، جہاں اُنھوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔

گزشتہ ہفتے ہی امریکہ کے صدر براک اوباما نے افغانستان میں 2016ء کے اختتام کے بعد بھی 8400 امریکی فوجی تعینات رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

اس سے قبل اعلان کردہ منصوبے کے تحت افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد کو کم کر کے 2016ء کے اختتام تک 5500 کرنا تھا۔

صدر اوباما کی طرف سے افغانستان میں 2016ء کے بعد بھی اضافی فوجی تعینات رکھنے کے اعلان کے بعد وزیر دفاع ایش کارٹر امریکہ کے دوسرے اعلیٰ عہدیدار ہیں جنہوں نے افغانستان کا دورہ کیا۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے کے اواخر میں امریکہ کی سینٹرل کمان کے کمانڈر جنرل جوزف ایل ووٹل نے افغانستان کا دورہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ صدر اوباما کے اعلان کہ بعد گزشتہ ہفتے پولینڈ کے شہر وارسا میں نیٹو ممالک کے سربراہ اجلاس میں نیٹو کے رکن ملکوں نے بھی افغانستان میں بین الاقوامی افواج کی قابل ذکر تعداد میں موجودگی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔

2014ء کے اواخر میں افغانستان میں 13 سالہ جنگی مشن مکمل ہونے پر بیشتر بین الاقوامی فوجی اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے گئے تھے۔

لیکن افغان حکومت سے طے پانے والے ایک سکیورٹی معاہدے کے تحت لگ بھگ 12 ہزار غیر ملکی فوجی افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں معاونت کے لیے افغانستان میں تعینات ہیں، ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 9800 ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے 2016ء کے بعد اضافی امریکی فوجی تعینات رکھنے کے فیصلے کو خوش آئندہ قرار دیا تھا جب کہ پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ وہ افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا کے عمل کی حمایت کرتا ہے۔

افغان تجزیہ کار ہارون میر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اعلیٰ امریکی عہدیدار اس سے قبل بھی غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان آتے رہے ہیں تاہم اُن کے بقول افغانستان میں امریکی فوجیوں کی اضافی تعداد تعینات رکھنے کے فیصلے کے تناظر میں یہ دورہ بہت اہم ہے۔

ہارون میر نے کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ طالبان کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ کیوں کہ ایک طرف طالبان کے لیے امن مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ پیغام بھی ہے کہ طالبان کی عسکری پیش رفت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘

افغانستان میں حالیہ مہینوں میں طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ افغان فورسز کو جہاں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا سامنا ہے وہیں وہ داعش کے جنگجوؤں سے بھی نمٹنے میں مصروف ہیں۔

اُدھر افغانستان میں تعینات امریکی فوج نے صوبہ ننگرہار میں ڈرون حملے کی تصدیق کی ہے۔ یہ ڈرون حملہ ضلع اچین میں کیا گیا تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ نشانہ بنائے جانے والے مشتبہ دہشت گردوں کا تعلق کس تنظیم سے تھا۔

پاکستانی اور افغان میڈیا میں نام ظاہر کیے بغیر سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں سامنے آئیں ہیں کہ افغانستان میں تازہ ڈرون حملے میں مارے جانے والوں میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دسمبر 2014ء میں حملے کا منصوبہ ساز پاکستانی طالبان کمانڈر عمر بھی شامل ہے۔

تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔