- سعودی عرب کے دورے میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی
کے ایک عہدہ دار نے یہودی ٹوپی ’کپہ‘ اتارنے کی درخواست مسترد کر دی - کمیشن نے خاص طور پر اس لیے اس واقعے کو قابل افسوس کہا ہے کہ یہ مذہبی آزادیوں کو فروغ دینے والے ادارے کے نمائندے کے ساتھ پیش آیا۔
- واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
مذہبی آزادی کے نگران ادارے کے ایک امریکی وفد نے پیر کو کہا کہ اس نے سعودی عرب کے اپنے دورے کو اس کے بعد مختصر کر دیا جب اس کے ایک رکن سے کہا گیا کہ وہ یہودیوں کی مخصوص ٹوپی یا ’کپہ‘ کو اپنے سر سے اتار دیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن(یو ایس سی آئی آر ایف) نےکہا ہے کہ اس کا وفد یونیسکو کے عالمی ورثے کے ایک تاریخی قصبے دیریہ کے دورے میں جب ریاض کے قریب پہنچا تو کمیشن کے سر براہ، آرتھوڈکس ربی ابراہام کوپر نے کپہ اتارنے کی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔
کوپر نے ایک بیان میں کہا کہ کسی کو بھی ایک تاریخی مقام تک رسائی دینے سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے خاص طور پر اس کو جو ایک یہودی کے طور پر اتحاد اور پراگریس کو اجاگر کرتا ہو۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا کہ کوپر اور کمیشن کے وائس چیئرمین ریورینڈ فریڈرک ڈیوی کو ان کے ایک سرکاری دورے کے دوران،متعدد بار تاخیر کے بعد گزشتہ ہفتے منگل کو اس مقام کے دورے کی دعوت دی گئی تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے عہدے داروں نے کوپر سے درخواست کی تھی کہ وہ اس مقام پر، اور اس وقت جب وہ وہاں کسی بھی وقت عوام کے سامنے ہوں، ’کپہ‘ سر سے اتار دیں۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ سعودی وزارت خارجہ نے اس دورے کی منظوری دے دی تھی۔
کوپر نے کہا کہ ،سعودی عرب 2030 کے اپنے وژن کے تحت تبدیلی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ تاہم ایک ایسے وقت میں جب یہود دشمنی میں اضافہ ہو رہا ہے، مجھ سے اپنا کپہ اتارنے کی درخواست نے یو ایس سی آئی آر ایف کے لیے دورہ جاری رکھنا ناممکن بنا دیا ۔
کمیشن نے کہا کہ یہ خاص طور پر اس لیے قابل افسوس ہے کہ یہ واقعہ مذہبی آزادیوں کو فروغ دینے والے ایک امریکی ادارے کے نمائندے کے ساتھ پیش آیا۔
یہ کمیشن امریکی حکومت کو مشاورت فراہم کرنے والا ادارہ ہے جسے کانگریس نے مینڈیٹ دیا ہے۔
کمیشن کے وائس چئیر ڈیوی نے اس واقعے کو حیرت انگیز اور تکلیف دہ قرار دیا اور مزید کہا کہ یہ نہ صرف سعودی حکومت کی جانب سے تبدیلی کے سرکاری موقف سے بلکہ سلطنت میں پہلے سے زیادہ مذہبی آزادیوں کی ان حقیقی علامات سے بھی متصادم ہے جن کا ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے۔
واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
یہ واقعہ ایسے میں پیش آیا ہے کہ جب غزہ میں جنگ پر سعودی عرب اور امریکہ کے اتحادی اسرائیل کے درمیان کشیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں اور امریکہ جنگ ختم ہونے کے بعد سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کر رہا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔