امریکہ میں حکام اور غیر جانب دار مبصرین نے چین کے افغانستان میں کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے طالبان کے دعوے کو مشکوک قرار ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ افغانستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت کے پیشِ نظر افغان عوام کی مدد کے بارے میں فکر مند ہے اور اسے مستقبل میں چین کے افغانستان میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کی فکر نہیں ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ کی توجہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر افغانستان میں درست لوگوں تک امداد پہنچانا ہے اور اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ انہیں وہ سب ملے جس کی انہیں ضرورت ہے۔
حالیہ دنوں میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ چین افغانستان میں کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا جس کے عوض چین کے کارکنوں اور ان کے اثاثوں کی حفاظت کی ضمانت طالبان نے دی ہے۔
SEE ALSO: چین افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر تیار ہے: طالبان ترجمانانہوں نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ چین کئی شعبہ جات میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے تفصیلات پر تبادلۂ خیال بھی کرنا چاہتا ہے۔
افغانستان کی تانبے کی سب سے بڑی کان کا، جہاں بدھ مت کے قدیم کھنڈرات بھی ہیں، ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں ایک بڑا منصوبہ ’مس عینک‘ ہے جو بہت اہم ہے۔ چین کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔
چین اس سے پہلے پاکستان اور ایران میں سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اس نے کابل کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں شامل ہونے کی بھی دعوت دی تھی۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس خیال کو، کہ چین اس وقت افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے، صرف اچھی خواہش ہی کہا جا سکتا ہے۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا مطلب ہے کہ ہر برس کروڑوں ڈالر کا منافع بھی واپس آئے۔ البتہ افغانستان کی معیشت اس وقت ایسی نہیں ہے کہ اس طرح کو کوئی امکان پیدا ہو سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حسین حقانی نے اس جانب توجہ دلائی کہ ابھی تک چین نے انسانی امداد کے سلسلے میں طالبان کو محض 31 لاکھ ڈالرز فراہم کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ طریقۂ کار کسی طرح بھی ایسے فریق کا نہیں ہو سکتا جو کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہو۔
طالبان کی افغانستان میں حکومت کو بین الاقوامی طور پر قبول کیے بغیر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اس وقت ممکن نہیں ہے۔ ابھی تک ’اسلامی امارات افغانستان‘ کو ، جو طالبان سرکاری نام اپنی حکومت کو دیتے ہیں، کسی بھی ملک نے قبول نہیں کیا۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعے کو سوویت یونین سے الگ ہونے والی آزاد ریاستوں کے کامن ویلتھ اجلاس میں کہا تھا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ان (طالبان) کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے البتہ ابھی جلد بازی کی ضرورت نہیں ہے۔
SEE ALSO: طالبان سے مذاکرات آئندہ ہفتے ہوں گے، البتہ پیش رفت کا امکان نہیں: روسانسانی امداد کی فراہمی، امریکہ کے شہریوں اور افغان اتحادیوں کے ملک سے انخلا کے علاوہ واشنگٹن فی الوقت افغانستان کے معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہا۔ امریکہ کے حکام نے کئی بار یہ بیانات دیے ہیں کہ امریکہ کی فوج اب افغانستان نہیں جائے گی۔
امریکی تھنک ٹینک ’ولسن سینٹر‘ کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب افغانستان کے گیم میں امریکہ شامل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی توجہ عالمی سطح پر بڑے ممالک کی مسابقت کی جانب مرکوز ہے۔ جن میں ایشیا پیسیفک اور جنوبی چین کے سمندر، تائیوان اور ہانگ کانگ میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے مخالف ممالک نے بھی افغانستان میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے میں کوئی جلدی نہیں دکھائی۔
کوگل مین کے مطابق چین اور روس بھی ابھی بہت احتیاط سے کام لیں گے اور پہلے یہ دیکھیں گے کہ افغانستان میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔