اس ہفتے امریکی پارلیمان کی ایک ذیلی کمیٹی کو پیش کیے گئے اپنے تحریری بیان میں امریکن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسرکینتھ اینڈرسن نے کہا کہ ”بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں سے پاکستان اور دوسرے علاقوں میں کیے جانے والوں حملوں پر واشنگٹن کی خاموشی پر بین الاقوامی قانونی برادری کی نمائندگی کرنے والے نامور وکلا ء کے صبر کا پیمانہ تیزی سے لبریز ہو رہا ہے۔“
انھوں نے کہا کہ امریکی محکمہء خارجہ اوردوسرے سرکاری اداروں میں کام کرنے والے وکلاء بھی حکومت امریکہ کی طرف سے اس معاملے کو حل نہ کرنے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ ” اور مجھے یقین ہے کہ جو انتظامیہ اس میں ملوث ہے آگے چل کر کسی مرحلے پر اُسے نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔“
پروفیسر کینتھ نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت کوئی بھی ملک اپنے دفاع کے لیے ڈرون حملے کرنے کا حق رکھتاہے اور امریکی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنے مقدمے کے حق میں ان دلائل کا سرعام پرچا ر کرے۔
خیال رہے کہ صدر باراک اوباما یہ بیان دے چکے ہیں کہ انتہاپسندی کے خلاف لڑائی دشمن کے گھر میں جا کر لڑیں گے اور شدت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں بنانے نہیں دیں گے۔ جبکہ امریکی عہدے دار نجی طور پر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے ٹھکانوں کے خلاف ڈرون حملوں کو انتہائی موثر ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ لیکن امریکی انتظامیہ اِن حملوں پر سرکاری طور پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کرتی ہے جبکہ ابھی تک اُس نے پاکستان اور دنیا کے دوسرے حصوں میں مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون سے میزائل حملوں کا کوئی قانونی جواز بھی پیش نہیں کیا ہے۔
پروفیسر کینتھ نے کہا کہ ” یہ حقیقتاََ ایک خوفناک اور غیر قانونی فعل ہے اور جو بھی اس میں ملوث ہے اُسے (بین الاقوامی انصاف کی عدالت) ہیگ بھیجنا چاہیے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر ہمارے صدرکو ہرگز یہ بیان نہیں دینا چاہیے کہ یہ (ڈرون حملے) سب سے بہترین چیز ہے ۔ یہ ایک انتہائی برُا آئیڈیا دیکھائی دیتا ہے۔“
انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور بعض قانونی ماہرین کا الزام ہے کہ پاکستان میں کیے جانے والے ڈرون حملے روایتی میدان جنگ کے دائرہ کارمیں نہیں آتے اور اس لیے یہ ماورائے عدالت قتل کے مترادف ہیں۔
پروفیسر کینتھ نے اپنے بیان میں کانگریس کی کمیٹی کو بتایا کہ سی آئی اے یا قومی سلامتی کی کونسل کے وہ عہدے دار اور قانونی مشیر جو ”مشتبہ اہداف کی فہرستیں“ تیار کرتے ہیں ڈرون سے لڑی جانے والی اس جنگ کے نتیجے میں غیر ممالک میں مقدمات کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ” یہی وہ لوگ ہیں جنہیں تحقیقات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اُن پر فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے ،غیرملکی عدالتوں میں انھیں سزائیں سنائی جا سکتی ہیں اور حماس کے خلاف کارروائیوں میں ملوث اسرائیلی عہدے داروں کی ساتھ پہلے ہی ایسا ہو چکا ہے۔“
انھوں نے کہا کہ ا س معاملے پر امریکی حکومت کی ہچکچاہٹ کی پالیسی کو اس مرحلے پرحق بجانب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
صدر اوباما نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون طیاروں سے میزائل حملوں میں غیر معمولی تیزی آئی ہے ۔ ان کارروائیوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر تشوش اور پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف پائے جانے والے غم وغصے کے باوجودالقاعدہ کے خلاف یہ امریکہ کامئوثر ہتھیار بن چکا ہے۔
اس ہفتے قانون کی بالادستی کے لیے سرگرم عمل امریکن سوِل لِبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) نے امریکہ کی ایک وفاقی عدالت میں دراخوست بھی دائر کی ہے جس میں ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ محکمہء خارجہ اور دوسرے سرکاری اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اُس قانونی جواز کی وضاحت کریں جس کے تحت بیرونی دنیا میں لوگوں کو قتل کیا جار ہا ہے۔
درخواست میں یہ جاننے کی استدعا بھی کی گئی ہے کہ کب، کہاں اور کس کے خلاف ڈرون حملے کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ تنظیم نے پاکستان میں غیر سرکاری اداروں کو بھی اس معاملے پر اپنی عدالتوں سے رجوع کرنے کا کہا ہے۔