بظاہر کرونا بحران نے امریکی معیشت کو گزشتہ نصف صدی کے کٹھن ترین مسائل سے دو چار کر رکھا ہے۔ ملک میں پانچ لاکھ لوگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، اور اس موذی مرض کے نئے کیسز کچھ کمی کے باوجود پریشان کن تعداد میں سامنے آ رہے ہیں۔ اور حالیہ دنوں میں اعلیٰ عہدیداروں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی اصلی شرح دس فیصد تک ہو سکتی ہے۔
لیکن ساتھ ہی کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلقہ کچھ ایسے مثبت عوامل بیک وقت نمودار ہو رہے ہیں جن کی بدولت امریکی معیشت کی نمو گزشتہ چار عشروں کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ان عوامل میں ویکسین کی دستیابی، امریکی صارفین کے اخراجات کا بڑھتا ہوا رجحان، صدر جو بائیڈن کی طرف سے 19 کھرب ڈالر کے کرونا ریلیف اور اسٹیمولس پیکچ، امریکیوں کی بچتوں اور کارخانوں میں پیداوار میں اضافہ شامل ہیں۔
ان سارے عوامل کے پیش نظر اقتصادیات کے تین بڑے اداروں بارکلیز، مورگن سٹینلے اور آکسفورڈ نے پیشن گوئی کی ہے کہ اس سال امریکی معیشت چھ اعشاریہ پانچ کی شرح سے آگے بڑھے گی۔ جب کہ گولڈمین سیکس نے کہا ہے کہ امریکی معیشت کی شرح نمو سات فیصد کی بلند سطح کو چھو لے گی۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ ویکسین کی بڑے پیمانے پر دستیابی سے غیر یقینی کی صورت حال کم ہو گی۔ کئی مہینوں سے جاری کرونا سے بچاؤ کے سلسلے میں عائد پابندیاں نرم ہونا شروع ہوں گی اور لوگ معمول کی اقتصادی سرگرمیوں اور کاروبار حیات کی جانب لوٹیں گے۔
کچھ ماہرین کی نظر میں معیشت کی زور و شور سے واپسی ایک زبردست رجحان کو جنم دے گی۔
اس تناظر میں اخبار یو ایس اے ٹو ڈے کے مطابق مورگن سٹینلے کے چیف اکانومسٹ چیتن اہیا نے کہا ہے کہ معیشت کا اس زبردست انداز میں آگے بڑھنا ایک بہت بڑی بات ہے کیونکہ امریکی معیشت سن 2007 اور 2009 کی کسادبازاری کے بعد کبھی بھی اپنی کھوئی ہوئی شرح نمو بحال نہہیں کر پائی تھی۔
ماہرین اقتصادیات توقع رکھتے ہیں کہ امریکی معیشت کی بلند ترین سطح پر افزائش سن 2022 کے اختتام تک جاری رہے گی۔
لیکن کچھ ماہرین، معیشت میں گزشتہ 20 سال کے مقابلے میں اس اچانک اضافے کے افراط زر جیسے منفی اثرات سے بھی خبردار کرتے ہیں۔ اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سابقہ وزیر خزانہ لیری سمرز کہتے ہیں کہ اس طرح اقتصادی ترقی سے معیشت اپنے امکانات سے بڑھ کر "اوورہیٹنگ" کا شکار ہو سکتی ہے جس کے باعث حالات ایک نئی کسادبازاری کی طرف رخ کر سکتے ہیں۔
SEE ALSO: عالمی معیشت: کرونا ویکسین سے بحالی کے امکانات روشن، مگر چیلنجز موجود رہیں گےاسی طرح ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کئی کمپنیوں کے ملازمین گھر سے یعنی آن لائن اپنا دفتری کام انجام دیں گے، جس سے چھوٹے درجے کے کاروباروں کی بحالی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
گریٹر واشنگٹن پارٹنرشپ اور ارنسٹ اینڈ ینگ کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے چار ماہ میں تقریباً 75 فیصد کارکن آن لائن کام کریں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے فراہمی اور امریکی انتظامیہ کی طرف سے چھوٹے درجے کے کاروباروں کی بحالی کے لیے مراعات فیصلہ کن ثابت ہوں گی۔
لیکن اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق کرونا بحران نے نئی مالی سوچ کو جنم دیا ہے۔ وفاقی ذخائر کے محکمے فیڈرل ریزروز نے کہا ہے کہ اگر افراط زر کی شرح دو فیصد تک بڑھ بھی جاتی ہے تو وہ قرضوں پر سود کی شرح کو صفر کے قریب یعنی کم سے کم سطح پر رکھے گا تاکہ کاروبار اور صارفین دونوں کے لیے قرضے لینے مین آسانی رہے۔
تاہم زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی میں بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے 19 کھرب ڈالر کے ریلیف پیکج کا کردار اہم ترین رہے گا، کیونکہ صارفین کی جیبوں میں خرچ کرنے کے لیے نئی رقوم آئیں گی۔ پہلے ہی گزشتہ ایک سال میں وفاق کی طرف سے دیے گئے 38 کھرب ڈالر نے معیشت کو بہت سہارا دیا ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق امریکہ میں ورک فورس یعنی کارکنان کی تعداد میں اضافے سے معیشت کی بحالی کے بعد، اس کی افزائش کو صحت مندانہ سطح پر برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں بے روزگار ہونے والی خواتین کی کام پر واپسی اور نئے تارکین وطن کا امریکہ میں آنا اور ملک کے انفراسٹرکچر یعنی سہولیات کے بنیادی ڈھانچوں کو جدید بنانا بہت اہم ثابت ہوں گے۔
کانگرس کے بجٹ دفتر کے تخمینے کے مطابق اگر امریکی معیشت ایک اعشاریہ آٹھ کے مقابلے میں دو اعشاریہ پانچ کی شرح نمو سے بڑھتی ہے تو ایک عشرے میں 111 ٹریلین ڈالر کی اقتصادی کاروائیاں عمل میں آئیں گی۔