واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے تازہ ترین جائزے سے پتہ چلا ہے کہ ملکی معیشت کے بارے میں لوگوں کی رائے اور زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے اور ایسے امریکیوں کی تعداد روز افزوں ہے جو صدر اوباما کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ تازہ ترین جائزے میں 40 فیصد کے مقابلے میں 59 فیصد امریکی معیشت کے بارے میں صدر کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ اگلے سال کے انتخاب میں ووٹروں کے لیئے معیشت ہی اہم ترین مسئلہ ہو گا۔ اس جائزے کے نتائج سے پہلے گذشتہ ہفتے امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 9.1 تک پہنچ جانے کی اطلاع آئی۔
سیاسی ماہرین کہتےہیں کہ ایسے صدر کے لیئے جو دوبارہ منتخب ہونے کے امید وار ہیں، بے روزگار ی کی یہ شرح خطرناک حد تک اونچی ہے ۔ اس مسئلے پر مسٹر اوباما نے وائٹ ہاؤس کی نیوز کانفرنس میں کہا’’ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس سے مستقبل میں اقتصادی ترقی ہوگی۔ لیکن ہمیں ابھی بہت زیادہ کام کرنا ہے، اور جب تک کچھ لوگ روزگار کے لیے پریشان ہیں، میں ہر روز صبح آنکھ کھلتے ہی یہ سوچنا شروع کر دوں گا کہ انہیں واپس کام پر لگانے کے لیے کیا کرنا چاہیئے۔‘‘
اقتصادی بحالی کی سست رفتاری پر وہ ریپبلیکنز سب سے زیادہ توجہ دے رہےہیں جو اگلے سال صدر اوباما کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ منی سوٹا کے سابق گورنر، Tim Pawlenty نے شکاگو میں اپنے اقتصادی منصوبے کا اعلان کیا جس میں اخراجات اور ٹیکس دونوں کم کر دیے جائیں گے۔ انھوں نے کہا’’صدر کی تیسرے درجے کی پالیسیوں کے نتیجے میں دوسرے درجے کی جو امریکی معیشت وجود میں آئی ہے، اس سے وہ مطمئن ہیں۔ لیکن میں اس سے مطمئن نہیں۔‘‘
واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے سروے سے پتہ چلا کہ اگر الیکشن آج ہو، تو صدر آسانی سے صدارت کے بیشتر ریپبلیکن حریفوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ لیکن اس سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کا ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنی سے تقریباً برابر کا مقابلہ ہے۔ جائزوں کے مطابق، تمام ریپبلیکن امید واروں کے مقابلے میں ان کی حمایت سب سے زیادہ ہے ۔
James Carville 1990 کی دہائی میں سابق صدر بل کلنٹن کے سیاسی مشیر تھے ۔ انھوں نے اے بی سی ٹیلیویژن کے پروگرام میں کہا کہ صدر اوباما کو ضرور کچھ نہ کچھ کرنا چاہیئے جس سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ انہیں ان امریکیوں کی فکر ہے جو روزگار کی تلاش میں مصروف ہیں یا جنہیں یہ خطرہ ہے کہ قرض کی قسط ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ اپنے گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
’’وہ بہت سے موضوعات کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ لیکن انہیں کمر بستہ ہو کر اعلان کرنا چاہیئے کہ میں ہر روز اس مسئلے کے حل کے لیئے کچھ نہ کچھ کروں گا۔ ہم یہ چیزیں کر رہے ہیں، اور ہمیں مزید یہ چیزیں کرنی ہیں۔ میں خوب سمجھتا ہوں کہ آپ پر کیا گذر رہی ہے۔‘‘
واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی کے تازہ ترین سروے کے مطابق صدر اوباما کی مقبولیت کی مجموعی شرح کم ہو کر 47 فیصد رہ گئی ہے اور 49 فیصد لوگ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ گذشتہ مہینے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے ان کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا تھا ، یہ شرح اس سے کچھ کم ہے۔
Quinnipiac یونیورسٹی کے پولسٹر پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ بن لادن کی ہلاکت سے صدر کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا تھا، اگلے سال نومبر میں انتخاب کے وقت تک لوگ اسے بھول چکے ہوں گے۔’’انتخابات ہمیشہ موجودہ صدر کے بارے میں ایک طرح کا ریفرینڈم ہوتے ہیں۔ 2012 کا انتخاب امریکی معیشت کے بارے میں ہو گا۔ یعنی وفاقی بجٹ کا خسارہ اور معیشت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے، اور مسٹر اوباما نے اس سلسلے میں کیا کیا، اور ووٹروں کے خیال میں ریپبلیکن اس بارے میں کیا کریں گے۔‘‘
صدر رونلڈ ریگن 1984 میں دوبارہ صدر منتخب ہو گئے تھے اگرچہ اس وقت بے روزگاری کی شرح 7.2 فیصد تھی۔ لیکن تین دوسرے صدور جن کے دور میں بے روزگار ی کی شرح چھ فیصد سے زیادہ تھی، دوبارہ منتخب نہیں ہو سکے ۔ جیرالڈ فورڈ ، جمی کارٹر اور جارج ایچ ڈبلو بُش ، یہ تینوں صدور دوبارہ منتخب نہیں ہو سکے اور ان کی ناکامی کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے عہد میں بے روزگاری کی شرح بہت اونچی تھی۔