امریکہ میں صدارتی انتخابات میں چھ مہینے سے کچھ ہی زیادہ وقت رہ گیا ہے۔ کرونا وائرس کی عالمی وبا کا مسئلہ انتخابی موضوعات میں نہایت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اس سلسلے میں ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن ایک دوسرے کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے نظر آ رہے ہیں۔
اس حوالے سے چین بھی بحث کا محور بن گیا ہے۔ٹرمپ اور بائیڈن ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے چین کی جانب نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا اظہار دونوں کی جانب سے اپنی اپنی انتخابی مہم کے اشتہارات میں کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار برائن پیڈن واشنگٹن سے اپنی رپورٹ میں بتاتے ہیں کہ کرونا وائرس کے پھوٹ پڑنے کے بارے میں، جس کا آغاز چین کے شہر ووہان سے ہوا تھا، چین کی جانب سے مبینہ طور پر ناکافی اور غلط معلومات کا معاملہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ایک گرما گرم موضوع بن چکا ہے۔
صدر ٹرمپ کی انتخابی ٹیم نے حال ہی میں ایک ایسا اشتہار جاری کیا ہے جس میں دو ہزار سولہ کی انتخابی مہم کے ایک پہلو کو دوہراتے ہوئے چین کو حملے کا نشانہ بنایا گیا اور ساتھ ہی جو بائیڈن پر بدعنوانی کا الزام بھی لگایا گیا۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر گروس مین کہتے ہیں کہ اگر یہ نسخہ پچھلی مرتبہ کارگر ہوگیا تھا تو وہ اس خیال میں ہو سکتے ہیں کہ شائد یہ پھر کام کر جائے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے دو ہزار سولہ کے انتخابات میں چین پر الزام لگایا تھا کہ وہ امریکہ میں مینوفیکچرنگ کے شعبے میں روزگار کی کمی کا ذمہ دار ہے اور یہ کہ ان کی ڈیموکریٹک حریف ہیلری کلنٹن بڑی کارپوریشنوں کے مفادات کی نگرانی کرتی رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، شائد یہ حکمت عملی ایک حد تک کام کرگئی اور ٹرمپ جیت گئے تھے۔
ٹرمپ اور کانگریس میں ریپبلکن ارکان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ، بقول ان کے، چین نے کوویڈ 19 کے بحران کی شدت پر پردہ ڈالا ہے اور یہ خبر پھیلائی ہے کہ کرونا وائرس کی آمد امریکہ سے ہوئی ہے، اس بات پر اسے سنگین نتائج بھگتنے چاہیں
تاہم، ٹرمپ کے ناقدین سمجھتے ہیں کہ یہ اس عالمی بحران سے نمٹنے میں امریکہ کی تساہلی پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے جس کی وجہ سے اب تک بیالیس ہزار امریکیوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک ایک نکتہ یہ ہے کہ اگر چین مکمل طور پر شفافیت اختیار کرتا تو امریکہ کرونا وائرس سے نمٹنے میں زیادہ ٹھوس حکمت عملی اپنا سکتا تھا۔
بائیڈن کی انتخابی مہم سے متعلق اشتہار میں ٹرمپ پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے کرونا وائرس کے خطرے کے بارے میں انٹیلی جنس کی ابتدائی رپورٹوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔
تجزیہ کار اس تمام پس منظر میں یہ کہتے ہیں کہ دونوں جانب سے چین پر بڑھتی ہوئی نکتہ چینی، امریکہ میں چین کے خلاف لوگوں کی برہمی کی عکاسی کرتی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہلک وائرس کی ابتدا دراصل چین سے ہوئی، جس نے عالمگیر وبا کی شکل اختیار کرلی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، دیکھنا یہ ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب میں متحارب پارٹیاں کرونا وائرس کی وبا اور چین کارڈ سے کس طرح اور کتنا فائدہ اٹھاسکتی ہیں؟