مٹ رومنی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اگر ناکام ریاست بنتا ہے اور وہاں موجود ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگتے ہیں، تو دنیا میں طاقت کا توازن متاثر ہوگا
چار سال پہلے افغانستان کی جنگ نے امریکی صدارتی انتخابات میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔
اس وقت صدر اوباما نے سینیٹر اوباماکے طور پر افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ 11 ستمبر کے بعد سب سے بڑی غلطی جو امریکہ نے کی تھی وہ یہ کہ اپنا کام افغانستان میں ختم نہیں کیاتھا۔
لیکن گزشتہ دس سال کی جنگ میں ہزاروں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور اربوں ڈالرکے اخراجات کے بعد ، ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی عوام اب تبدیلی کے لئے تیار ہیں ۔ اس سال مارچ تک ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نصف امریکی عوام افغانستان سے اپنی فوج کی فوری واپسی چاہتے ہیں ،جبکہ دونوں صدارتی امیدوار صدر اوباما اور مٹ رومنی بھی 2014ء تک افغانستان سے امریکی فوج کی مکمل واپسی کی بات کر رہے ہیں۔
صدر اوباما اور مٹ رومنی نے اپنے تیسرے صدارتی مباحثے میں 2014ء تک افغانستان سے امریکی فوج نکالنے پر اتفاق کیا تھا اور اس امیدکا اظہار کیا تھا کہ افغان فوج 2014ء تک اپنے ملک کی سیکیورٹی سنبھالنے کے قابل ہو جائے گی۔
صدر اوباما نے یہ بھی کہا تھا کہ دس سال کی جنگ کے بعد امریکی عوام کو احساس ہو گیا ہے کہ اب کسی اور کے ملک کو نہیں اپنے ملک کو درست کرنے کا وقت ہے۔
لیکن، واشنگٹن میں مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان ابھی اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود سنبھالنے کے قابل نہیں ہوا اور نہ ہی 2014ءتک ایسا ہوسکے گا ۔ واشنگٹن کے ’کیٹو انسٹی ٹیوٹ‘ کی ملو انوسینٹ کہتی ہیں کہ امریکہ افغانستان سے ویسے ہی پیچھے ہٹے گا ، جیسے ایک بار پہلے عراق جنگ کے دوران پیچھے ہٹا تھا۔
ملو انوسینٹ کی رائے بھی یہی ہے کہ امریکی اب صرف اپنا ملک ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور جنگ سے اتنے تھک چکے ہیں کہ اب انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے ملک سے باہر کیا ہو رہا ہے۔
لیکن افغانستان کا ذکر پاکستان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔امریکہ کے دونوں صدارتی امیدواروں کو اپنے آخری مباحثے میں پاکستان کے بارے میں سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مٹ رومنی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اگر ناکام ریاست بنتا ہے اور وہاں موجود ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگتے ہیں، تو دنیا میں طاقت کا توازن متاثر ہوگا ۔ پاکستان تکنیکی لحاظ سے ایک دوست ملک ہے لیکن وہ ایک دوست کی طرح پیش نہیں آرہاہے ۔اور ہمیں اس پر کام کرنا پڑے گا۔
مٹ رومنی نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں برے لوگوں کا پیچھا کرنے کے علاوہ بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
جبکہ صدر اوبامانے اسامہ بن لادن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ یاد رکھیں کہ ہماری حکمت عملی بن لادن کا پیچھا کرنے کی نہیں تھی، بلکہ ہم نے شدت پسندی سے نمٹنے کے لئےپورے خطے میں پارٹنر شپس قائم کی ہیں۔
لیکن، پاکستان ہو یا افغانستان ، امریکہ کے اگلے صدر کے انتخاب پر اس بار خارجہ پالیسی نہیں ، امریکہ کے اندرونی معاملات ہی اثر انداز ہونگے۔
اس وقت صدر اوباما نے سینیٹر اوباماکے طور پر افغانستان کا دورہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ 11 ستمبر کے بعد سب سے بڑی غلطی جو امریکہ نے کی تھی وہ یہ کہ اپنا کام افغانستان میں ختم نہیں کیاتھا۔
لیکن گزشتہ دس سال کی جنگ میں ہزاروں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور اربوں ڈالرکے اخراجات کے بعد ، ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی عوام اب تبدیلی کے لئے تیار ہیں ۔ اس سال مارچ تک ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نصف امریکی عوام افغانستان سے اپنی فوج کی فوری واپسی چاہتے ہیں ،جبکہ دونوں صدارتی امیدوار صدر اوباما اور مٹ رومنی بھی 2014ء تک افغانستان سے امریکی فوج کی مکمل واپسی کی بات کر رہے ہیں۔
صدر اوباما اور مٹ رومنی نے اپنے تیسرے صدارتی مباحثے میں 2014ء تک افغانستان سے امریکی فوج نکالنے پر اتفاق کیا تھا اور اس امیدکا اظہار کیا تھا کہ افغان فوج 2014ء تک اپنے ملک کی سیکیورٹی سنبھالنے کے قابل ہو جائے گی۔
صدر اوباما نے یہ بھی کہا تھا کہ دس سال کی جنگ کے بعد امریکی عوام کو احساس ہو گیا ہے کہ اب کسی اور کے ملک کو نہیں اپنے ملک کو درست کرنے کا وقت ہے۔
لیکن، واشنگٹن میں مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان ابھی اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری خود سنبھالنے کے قابل نہیں ہوا اور نہ ہی 2014ءتک ایسا ہوسکے گا ۔ واشنگٹن کے ’کیٹو انسٹی ٹیوٹ‘ کی ملو انوسینٹ کہتی ہیں کہ امریکہ افغانستان سے ویسے ہی پیچھے ہٹے گا ، جیسے ایک بار پہلے عراق جنگ کے دوران پیچھے ہٹا تھا۔
ملو انوسینٹ کی رائے بھی یہی ہے کہ امریکی اب صرف اپنا ملک ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور جنگ سے اتنے تھک چکے ہیں کہ اب انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے ملک سے باہر کیا ہو رہا ہے۔
لیکن افغانستان کا ذکر پاکستان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔امریکہ کے دونوں صدارتی امیدواروں کو اپنے آخری مباحثے میں پاکستان کے بارے میں سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مٹ رومنی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اگر ناکام ریاست بنتا ہے اور وہاں موجود ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگتے ہیں، تو دنیا میں طاقت کا توازن متاثر ہوگا ۔ پاکستان تکنیکی لحاظ سے ایک دوست ملک ہے لیکن وہ ایک دوست کی طرح پیش نہیں آرہاہے ۔اور ہمیں اس پر کام کرنا پڑے گا۔
مٹ رومنی نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں برے لوگوں کا پیچھا کرنے کے علاوہ بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
جبکہ صدر اوبامانے اسامہ بن لادن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ یاد رکھیں کہ ہماری حکمت عملی بن لادن کا پیچھا کرنے کی نہیں تھی، بلکہ ہم نے شدت پسندی سے نمٹنے کے لئےپورے خطے میں پارٹنر شپس قائم کی ہیں۔
لیکن، پاکستان ہو یا افغانستان ، امریکہ کے اگلے صدر کے انتخاب پر اس بار خارجہ پالیسی نہیں ، امریکہ کے اندرونی معاملات ہی اثر انداز ہونگے۔