ماہرین کہتے ہیں کہ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے امریکی انتخاب کے نتیجے سے، برسوں تک دنیا کے اقتصادی، جغرافیائی اور سیاسی رویے متاثر ہوتے رہیں گے ۔
واشنگٹن —
یورپ قرض کے ایسے بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے سارے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لینے کا خطرہ ہے، اور چین اپنی معیشت میں سستی کے رجحان کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے ، لیکن یہ ایسا وقت ہے کہ دنیا کی نظریں امریکہ کے انتخاب پر لگی ہوئی ہیں ۔ ساری دنیا کے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ امریکی کسے اپنا نیا لیڈر منتخب کریں گے ، کیوں کہ نومبر میں جو بھی کامیاب ہو گا اس کے اختیار میں دنیا میں سب سے زیادہ رقم، اور دنیا کی معیشت پر اثر انداز ہونے کی سب سے زیادہ صلاحیت ہو گی۔
اگر رائے عامہ کے جائزے درست ہیں، تو 2012 کے انتخاب کا فیصلہ مٹھی بھر ریاستوں میں جہاں دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے، ووٹوں کی بہت تھوڑی سی لیکن انتہائی اہم تعداد کے فرق سے ہو گا ۔ لیکن اس انتخاب کے اثرات صرف امریکہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ جیسا کہ پیو ریسرچ سینٹر کے بروس سٹوکس نے کہا ہے، امریکہ کا یہ انتخاب ساری دنیا پر اثر انداز ہو گا۔
’’صاف ظاہر ہے کہ اس انتخاب میں ووٹ تو صر ف امریکی ڈالیں گے، لیکن اس کے نتائج کے اثرات ساری دنیا پر پڑیں گے۔‘‘
امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کے ایک چوتھائی کے مساوی ہے۔ دنیا میں کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے جس کی معیشت کے اثرات اتنے زیادہ دور رس ہوں۔ اقتصادی ماہرین کے درمیان ایک عام کہاوت یہ ہے جب امریکہ کو چھینک آتی ہے، تو باقی دنیا کو زکام ہو جاتا ہے ۔
ڈیسمینڈ لیکمین قدامت پسند رجحانات والے امریکن انٹرپرائز انسٹیٹوٹ میں ماہرِ معاشیات ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’2008-2009 کی عظیم اقتصادی کساد بازاری کے دوران یہ بات واضح ہو گئی کہ امریکہ کے بنکاری کےنظام میں جو اتار چڑھاؤ آیا، اس کے اثرات ساری دنیا میں محسوس کیے گئے۔‘‘
انتخابی مہم کے دوران، دونوں امیدواروں نے اتفاق کیا ہے کہ صحت مند امریکی معیشت، عالمی استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ دونوں نے امریکیوں کو یقین دلایا ہے کہ معیشت کو ترقی دینے کے لیے ان کے پاس منصوبہ موجود ہے۔ ریپبلیکن امیدوار مٹ رومنی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک جیسے کاروباری حالات پیدا کرنے کے لیے، چین کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں گے۔
رومنی نے کہا ’’پہلے ہی دن، میں چین پر ایسے ملک کا ٹھپّا لگا دوں گا جو کرنسی کی قدر میں ہیر پھیر کرتا ہے۔ اس طرح صدر کی حیثیت سے، مجھے یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ اگر ضروری ہو تو میں ایسے ملکوں پر محصولات عائد کردوں جو اشیاء تیار کرنے والی ہماری کمپنیوں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘
صدر اوباما جو دوسری مدت کے لیے انتخابی جنگ لڑ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں امریکہ کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح چین کی کم قیمت والی کرنسی کی قدر میں ، ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک گیارہ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
مسٹر اوباما کہتے ہیں کہ مضبوط معیشت کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ایسے روزگار جن کا تعلق اشیاء کی تیاری سے ہے، امریکہ واپس لائے جائیں، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کام کرنے کے لیے مسٹر رومنی موزوں شخص نہیں ہیں۔
’’یاد رکھیئے کہ گورنر رومنی نے ایسی کمپنیوں میں پیسہ لگایا جنھوں نے بہت سا کام چین منتقل کرنے کا آغاز کیا۔ گورنر صاحب، چین کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے آپ آخری آدمی ہوں گے۔‘‘
لیکن یہ مسئلہ بہت بڑا ہے اور چین کا رول اس کا صرف ایک جزو ہے ۔ یورپ میں قرض کے بحران کی وجہ سے امریکی اشیاء کی مانگ کم ہو گئی ہے۔ ڈیسمنڈ لیکمین کہتے ہیں کہ 17 ملکوں والے یورو زون میں مسائل اور زیادہ سنگین ہوتے جا رہے ہیں، اور ان سے ساری دنیا میں اقتصادی سرگرمیاں مزید سست پڑ سکتی ہیں۔
’’میرا اندازہ یہ ہے کہ چونکہ یورپ امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اس لیے وہ آنے والے برسوں میں امریکہ کے لیے بعض سنگین مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔‘‘
لیکیمن کہتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری کی اونچی شرح کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے رومنی نے جو طریقہ تجویز کیا ہے وہ کاروباری اداروں کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہو گا ۔ لیکن پیو سینٹر کے بروس سٹوکس کہتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے علاقوں میں، اوباما بہت مقبول ہیں۔ اگر رومنی صدر بن گئے تو امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
’’چین کے بارے میں جو کہا گیا ہے وہ بڑا دلچسپ ہے۔ میرا خیال ہے کہ رومنی نے جو زورِ بیان دکھایا ہے، اس سے کچھ عرصے کے لیے چین میں امریکہ کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے ۔ تا ہم ، زیادہ اثر یورپ پر ہو گا۔‘‘
پیو سینٹر کے حالیہ سروے کے مطابق، مغربی یورپ کے لوگوں کی بھاری اکثریت مسٹر اوباما کی صدارت کی دوسری مدت کے حق میں ہے ۔ فرانس میں 92 فیصد، جرمنی میں 89 فیصد، اور برطانیہ میں 73 فیصد لوگ اوباما کے حامی ہیں ۔ تاہم، یونان میں صدر کی مقبولیت بہت کم ہے ۔ وہاں صرف 22 فیصد لوگوں نے عالمی معیشت کے سلسلے میں ان کی پالیسی کی حمایت کی۔
لیکمین کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی جیتے، بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، خاص طور سے اگر بری طرح بٹی ہوئی کانگریس سال کے آخر میں ، سرکاری اخراجات میں بھاری کٹوتی کرنے پر متفق نہ ہو سکے۔
’’اگر امریکہ میں حالات خراب ہو جاتے ہیں، تو اس کے عالمی سطح پر زبردست اثرات پڑیں گے، خاص طور سے آج کل کے حالات میں کیوں کہ باقی دنیا کی حالت اچھی نہیں ہے ۔ اگر امریکہ کے قدم بھی لڑ کھڑا گئے تو یہ بہت برا ہوگا۔‘‘
تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ امریکی جسے بھی منتخب کریں گے، دنیا خود کو اس کے مطابق ڈھال لے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے امریکی انتخاب کے نتیجے سے، برسوں تک دنیا کے اقتصادی، جغرافیائی اور سیاسی رویے متاثر ہوتے رہیں گے ۔
اگر رائے عامہ کے جائزے درست ہیں، تو 2012 کے انتخاب کا فیصلہ مٹھی بھر ریاستوں میں جہاں دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے، ووٹوں کی بہت تھوڑی سی لیکن انتہائی اہم تعداد کے فرق سے ہو گا ۔ لیکن اس انتخاب کے اثرات صرف امریکہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ جیسا کہ پیو ریسرچ سینٹر کے بروس سٹوکس نے کہا ہے، امریکہ کا یہ انتخاب ساری دنیا پر اثر انداز ہو گا۔
’’صاف ظاہر ہے کہ اس انتخاب میں ووٹ تو صر ف امریکی ڈالیں گے، لیکن اس کے نتائج کے اثرات ساری دنیا پر پڑیں گے۔‘‘
امریکہ کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی کل پیداوار کے ایک چوتھائی کے مساوی ہے۔ دنیا میں کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے جس کی معیشت کے اثرات اتنے زیادہ دور رس ہوں۔ اقتصادی ماہرین کے درمیان ایک عام کہاوت یہ ہے جب امریکہ کو چھینک آتی ہے، تو باقی دنیا کو زکام ہو جاتا ہے ۔
ڈیسمینڈ لیکمین قدامت پسند رجحانات والے امریکن انٹرپرائز انسٹیٹوٹ میں ماہرِ معاشیات ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’2008-2009 کی عظیم اقتصادی کساد بازاری کے دوران یہ بات واضح ہو گئی کہ امریکہ کے بنکاری کےنظام میں جو اتار چڑھاؤ آیا، اس کے اثرات ساری دنیا میں محسوس کیے گئے۔‘‘
انتخابی مہم کے دوران، دونوں امیدواروں نے اتفاق کیا ہے کہ صحت مند امریکی معیشت، عالمی استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے ۔ دونوں نے امریکیوں کو یقین دلایا ہے کہ معیشت کو ترقی دینے کے لیے ان کے پاس منصوبہ موجود ہے۔ ریپبلیکن امیدوار مٹ رومنی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک جیسے کاروباری حالات پیدا کرنے کے لیے، چین کے ساتھ سخت رویہ اختیار کریں گے۔
رومنی نے کہا ’’پہلے ہی دن، میں چین پر ایسے ملک کا ٹھپّا لگا دوں گا جو کرنسی کی قدر میں ہیر پھیر کرتا ہے۔ اس طرح صدر کی حیثیت سے، مجھے یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ اگر ضروری ہو تو میں ایسے ملکوں پر محصولات عائد کردوں جو اشیاء تیار کرنے والی ہماری کمپنیوں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘
صدر اوباما جو دوسری مدت کے لیے انتخابی جنگ لڑ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں امریکہ کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح چین کی کم قیمت والی کرنسی کی قدر میں ، ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک گیارہ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
مسٹر اوباما کہتے ہیں کہ مضبوط معیشت کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ایسے روزگار جن کا تعلق اشیاء کی تیاری سے ہے، امریکہ واپس لائے جائیں، اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کام کرنے کے لیے مسٹر رومنی موزوں شخص نہیں ہیں۔
’’یاد رکھیئے کہ گورنر رومنی نے ایسی کمپنیوں میں پیسہ لگایا جنھوں نے بہت سا کام چین منتقل کرنے کا آغاز کیا۔ گورنر صاحب، چین کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے آپ آخری آدمی ہوں گے۔‘‘
لیکن یہ مسئلہ بہت بڑا ہے اور چین کا رول اس کا صرف ایک جزو ہے ۔ یورپ میں قرض کے بحران کی وجہ سے امریکی اشیاء کی مانگ کم ہو گئی ہے۔ ڈیسمنڈ لیکمین کہتے ہیں کہ 17 ملکوں والے یورو زون میں مسائل اور زیادہ سنگین ہوتے جا رہے ہیں، اور ان سے ساری دنیا میں اقتصادی سرگرمیاں مزید سست پڑ سکتی ہیں۔
’’میرا اندازہ یہ ہے کہ چونکہ یورپ امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اس لیے وہ آنے والے برسوں میں امریکہ کے لیے بعض سنگین مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔‘‘
لیکیمن کہتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری کی اونچی شرح کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے رومنی نے جو طریقہ تجویز کیا ہے وہ کاروباری اداروں کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہو گا ۔ لیکن پیو سینٹر کے بروس سٹوکس کہتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے علاقوں میں، اوباما بہت مقبول ہیں۔ اگر رومنی صدر بن گئے تو امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
’’چین کے بارے میں جو کہا گیا ہے وہ بڑا دلچسپ ہے۔ میرا خیال ہے کہ رومنی نے جو زورِ بیان دکھایا ہے، اس سے کچھ عرصے کے لیے چین میں امریکہ کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے ۔ تا ہم ، زیادہ اثر یورپ پر ہو گا۔‘‘
پیو سینٹر کے حالیہ سروے کے مطابق، مغربی یورپ کے لوگوں کی بھاری اکثریت مسٹر اوباما کی صدارت کی دوسری مدت کے حق میں ہے ۔ فرانس میں 92 فیصد، جرمنی میں 89 فیصد، اور برطانیہ میں 73 فیصد لوگ اوباما کے حامی ہیں ۔ تاہم، یونان میں صدر کی مقبولیت بہت کم ہے ۔ وہاں صرف 22 فیصد لوگوں نے عالمی معیشت کے سلسلے میں ان کی پالیسی کی حمایت کی۔
لیکمین کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی جیتے، بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، خاص طور سے اگر بری طرح بٹی ہوئی کانگریس سال کے آخر میں ، سرکاری اخراجات میں بھاری کٹوتی کرنے پر متفق نہ ہو سکے۔
’’اگر امریکہ میں حالات خراب ہو جاتے ہیں، تو اس کے عالمی سطح پر زبردست اثرات پڑیں گے، خاص طور سے آج کل کے حالات میں کیوں کہ باقی دنیا کی حالت اچھی نہیں ہے ۔ اگر امریکہ کے قدم بھی لڑ کھڑا گئے تو یہ بہت برا ہوگا۔‘‘
تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ امریکی جسے بھی منتخب کریں گے، دنیا خود کو اس کے مطابق ڈھال لے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے امریکی انتخاب کے نتیجے سے، برسوں تک دنیا کے اقتصادی، جغرافیائی اور سیاسی رویے متاثر ہوتے رہیں گے ۔