کیا ووٹ ڈالنا بھی امریکی خواب کا حصہ ہے؟

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں لاکھوں تارکین وطن ہیں جو گردش دوراں کے سبب، اپنے خاندانوں سے دور مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں

حالیہ امریکی صدارتی اانتخابات میں امیگریشن ایک اہم مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس رپورٹ میں وائس آف امریکہ کے ثاقب الاسلام اور کولوراڈو سے کیتھرین جپسن نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ تارکین وطن کے لیے امریکہ اور امریکہ کے لیے تارکین وطن کتنے اور کیوں اہم ہیں؟

جیوانا کا تعلق لاطینی امریکہ کے ملک بولیویا سے ہے اور وہ گزشتہ دو سال سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ چار بہین بھائیوں میں سب سے بڑی، جیوانا اپنے اور اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے امریکہ آئی تھیں۔ ان کا خواب ایک امریکی خواب ہے جس کے حصول کے لیے انھیں سخت محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ دو سال سے وہ اپنے خاندان سے مل نہیں پائی ہیں۔

جیوانا کی طرح امریکہ میں لاکھوں تارکینِ وطن ہیں جو گردش دوراں کے باعث اپنے خاندانوں سے دور مشکل حالات میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔

ریاست کولوراڈو سے کانگریس کے لیے انتخاب لڑنے والی مورگن کیرول کے لیے اس علاقے میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے مسائل ان کی ترجیحات میں شامل ہیں، کیونکہ اس علاقے کے 20 فیصد ووٹر ایسے تارکین وطن ہیں جن کا تعلق لاطینی امریکی ممالک سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کے لیے اور ہمارے ملک کے لیے اہم ہے۔

کیرول کا کہنا ہے کہ یہاں ووٹر چاہتے ہیں کہ امیگریشن کا ایسا حل نکالا جائے جس سے ان کے خاندان ٹوڑ پھوڑ کا شکار نہ ہوں۔

بقول ان کے، ’’میں امید کرتی ہوں کہ وہ اپنی تعداد اور طاقت کو سمجھیں گے۔ یہی وقت ہے کہ وہ اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے بہتر سلوک اور حکمت عملی کا مطالبہ کریں‘‘۔

کیرول کے انتخابی حلقے میں سال 2011 سے لاطینی ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے خلاف الیکشن لڑنے والے موجودہ کانگریس میں مائیک کوف مین نے بھی اس بات کو سمجھا ہے اور اب وہ امیگریشن کے سخت قوانین کے بارے میں اپنے مؤقف میں تبدیلی لائے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں نہایت کانٹےکا الیکشن ہونےکی توقع ہے

لاطینی ووٹر صرف کانگریس کے الیکشن پر ہی اثرانداز نہیں ہوں گے۔ بلکہ ریاست کولوراڈو میں تقریباً 5 لاکھ ووٹوں کی تعداد کے ساتھ لاطینی تارکین وطن نے اس ریاست کو صدارتی الیکشن کے لیے بھی ایک ایسی ریاست بنا دیا ہے، جس کے نتائج کے بارے میں واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ وہ کس پارٹی کے حق میں ڈالے جائیں گے۔ لیکن، اس صورت میں اگر یہ تمام ووٹر الیکشن کے دن گھروں سے ووٹ ڈالنے کے لیے نکلیں۔ یہاں کی لاطینی برادری کی تنظیم کا کہنا ہے کہ زیادہ تر رجسٹرڈ ووٹر ووٹ نہیں ڈالتے۔ ان کے الفاظ میں ’’عام طور پر دوسرے ممالک میں تارکین وطن کے ووٹ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی یا الیکشن شفاف نہیں ہوتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تارکین وطن یہاں بھی اسی رجحان کا شکار نظر آتے ہیں اور ووٹ نہیں ڈالتے۔‘‘

جینی سینٹوس گھر گھر جا کر لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ کرنے کی مہم چلا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لاطینی امریکی ووٹروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔ ان کا ووٹ اہم ہے۔ کبھی کبھی وہ یہ دیکھ کر دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں کہ حکومت اور سیاستدان ان کی بات نہیں سن رہے۔

لیکن جینی یہ بھی کہتی ہیں کہ اب کی بار سیاستدان بھی لاطینی تارکین وطن کے ووٹ کی اہمیت سے باخبر نظر آتے ہیں۔ اگر ان کی انتخابی مہم لاطینی کمیونٹی کو ووٹ کے لیے باہر نہیں نکالتی تو وہ ووٹ نہیں ڈالیں گے۔

اور کانگریس کی امیدوار، مرگن کیرول بھی اس بات کو سمجھتی ہیں کہ ووٹر چاہتے ہیں کہ آپ ان کے خاندانوں کے لیے کچھ واضح کام کیا جائے، صرف باتیں کرنا کافی نہیں ہوگا۔

دوسری طرف، واشنگٹن میں جیوانا دن رات انتھک محنت کر رہی ہیں تاکہ وہ بھی ایک دن امریکی شہری بن سکیں اور اس امریکی خواب کی تعبیر حاصل کرسکیں جہاں وہ جب چاہیں اپنے خاندان سے مل سکیں۔