رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دنیا میں امریکہ پر اعتماد مسلسل کم ہو رہا ہے ۔
قاہرہ —
امریکہ کے صدارتی امیدواروں براک اوباما اور مٹ رومنی کے درمیان خارجہ پالیسی ، خاص طور سے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں خاصی تیز نوک جھونک ہوئی ہے ۔ لیکن اس علاقے کے بہت سے لوگوں میں یہ خیال عام ہے کہ جیت کسی کی بھی ہو، مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
پورے مشرقِ وسطیٰ میں تقریباً دو برس سے جو سیاسی تبدیلیاں آتی رہی ہیں ، ان سے بہت سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں ۔ لہٰذا، اس بات پر شاید حیرت نہیں ہونی چاہیئے کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں بہت کم لوگوں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
صدر براک اوباما اور ان کے حریف مٹ رومنی دونوں نے مشرق ِ وسطیٰ کو خارجہ پالیسی کا اہم مسئلہ قرار دیا ہے ۔ اس کے باوجود، اس علاقے کے لوگوں نے دونوں میں سے کسی کے بارے میں ترجیح کا اظہار نہیں کیا۔
حالیہ مباحثے میں، مسٹر رومنی نے اس علاقے کے بارے میں جہاں ان کے خیال میں افرا تفری پھیلی ہوئی ہے، تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا’’ہم مشرق ِ وسطیٰ کی بات کر رہے ہیں کہ اس علاقے میں جس قسم کی دہشت گردی نظر آ رہی ہے، اور جو اضطراب اور افرا تفری پھیلی ہوئی ہے، اسے مسترد کرنے میں ہم کس طرح مشرقِ وسطیٰ کی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
لیکن عرب دنیا میں بعض لوگوں کے لیے، کسی امریکی سیاست دان کا مدد کی بات کرنا، سراسر غرور اور تکبر کی علامت ہے۔ ایمن کمال قاہرہ کے ایک اسٹور میں کلرک ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’امریکہ کے ساتھ ہمارا تعلق ایسا ہے جیسے کوئی ٹیچر ہاتھ میں ڈنڈا لیے اپنے طالب علموں کے سر پر کھڑا ہو ، گویا ہم عرب ،کلاس روم میں طالب علم ہیں ۔ میرا تاثر تو امریکہ کے بارے میں بس یہی ہے۔‘‘
لوگوں کے مشتعل ہونے کی وجہ صرف سیاسی اقدامات نہیں ہیں ۔ لیبیا میں اور اس سے پہلے عراق میں امریکہ کی فوجی کارروائی کے بعد، اس قسم کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ امریکہ شام کی صورت حال کو اور زیادہ خراب کر سکتا ہے، اگرچہ مسٹر اوباما نے محتاط رویہ اختیار کرنے پر زور دیا ہے ۔ انھوں نے کہا ہے’’ہمارے لیے شام میں فوجی اعتبار سے اور زیادہ الجھ جانا، بڑا سنگین اقدام ہو گا۔‘‘
اور مسٹر رومنی نے کہا ہے’’ہم وہاں فوجی اعتبار سے الجھنا نہیں چاہتے ۔ ہم فوجی تصادم میں شریک ہونا نہیں چاہتے۔‘‘
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دنیا میں امریکہ پر اعتماد مسلسل کم ہو رہا ہے ۔ اس سال کے شروع میں پیو ریسرچ سینٹر کے گلوبل ایٹیٹیوٹ پراجیکٹ کے تحت ہونے والے سروے سے پتا چلا کہ صرف 24 فیصد ترکوں نے اوباما پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔
پیو کی رپورٹ کے مطابق، مصر میں امریکہ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے ۔2012 کے سروے میں 19 فیصد لوگوں کی رائے امریکہ کے بارے میں اچھی تھی، جب کہ ایک سال قبل یہ تعداد 22 فیصد تھی۔
مصنف اور سیاسیات کے ماہر حسن نافا کہتے ہیں کہ امریکی انتخاب میں فتح کس کی ہوتی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔’’ میرے خیال میں عوامی نقطۂ نظر سے، کسی کو اس میں دلچسپی نہیں کہ امریکہ میں کیا ہو رہا ہے کیوں کہ اوباما آئیں یا رومنی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ دانشور اوباما کو رومنی پر ترجیح دیں گے کیوں کہ امریکی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال میں، اوباما زیادہ محتاط رہیں گے۔‘‘
2009ء میں جب مسٹر اوباما نے قاہرہ میں تقریر کے دوران، مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی طرف سے نئی ابتدا کا وعدہ کیا، تو توقعات بہت بڑھ گئی تھیں ۔ لیکن اس کے بعد لوگوں کو مایوسی ہوئی۔ قبطی مذہبی رہنما آگتھون شہاتا کہتے ہیں’’صدر اوباما کی پالیسیاں وہ نہیں تھیں جن کی توقع کی گئی تھی۔ مسٹر رومنی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کیوں کہ میں ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔‘‘
حسن نافا کو اوباما انتظامیہ کی جس با ت سے سب سے زیادہ مایوسی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ عرب اسرائیلی تنازعے میں، امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں’’ہر کوئی جانتا ہے کہ امریکہ پر چاہے کسی کی حکومت ہو، اسرائیل کی مکمل حمایت جاری رہے گی ۔ جب تک امریکہ کے صدر مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی موجودہ پالیسی تبدیل نہیں کرتے، امریکہ دنیا کے اس حصے میں منفی کردار ادا کرتا رہے گا، اور کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘‘
دونوں امیدواروں نے امریکہ کے دیرینہ اتحادی کی مکمل حمایت کا عہد کیا ہے اور اسرائیل کی یہ مسلسل حمایت علاقے کے دوسرے ملکوں میں امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔
پورے مشرقِ وسطیٰ میں تقریباً دو برس سے جو سیاسی تبدیلیاں آتی رہی ہیں ، ان سے بہت سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں ۔ لہٰذا، اس بات پر شاید حیرت نہیں ہونی چاہیئے کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں بہت کم لوگوں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
صدر براک اوباما اور ان کے حریف مٹ رومنی دونوں نے مشرق ِ وسطیٰ کو خارجہ پالیسی کا اہم مسئلہ قرار دیا ہے ۔ اس کے باوجود، اس علاقے کے لوگوں نے دونوں میں سے کسی کے بارے میں ترجیح کا اظہار نہیں کیا۔
حالیہ مباحثے میں، مسٹر رومنی نے اس علاقے کے بارے میں جہاں ان کے خیال میں افرا تفری پھیلی ہوئی ہے، تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا’’ہم مشرق ِ وسطیٰ کی بات کر رہے ہیں کہ اس علاقے میں جس قسم کی دہشت گردی نظر آ رہی ہے، اور جو اضطراب اور افرا تفری پھیلی ہوئی ہے، اسے مسترد کرنے میں ہم کس طرح مشرقِ وسطیٰ کی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
لیکن عرب دنیا میں بعض لوگوں کے لیے، کسی امریکی سیاست دان کا مدد کی بات کرنا، سراسر غرور اور تکبر کی علامت ہے۔ ایمن کمال قاہرہ کے ایک اسٹور میں کلرک ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’امریکہ کے ساتھ ہمارا تعلق ایسا ہے جیسے کوئی ٹیچر ہاتھ میں ڈنڈا لیے اپنے طالب علموں کے سر پر کھڑا ہو ، گویا ہم عرب ،کلاس روم میں طالب علم ہیں ۔ میرا تاثر تو امریکہ کے بارے میں بس یہی ہے۔‘‘
لوگوں کے مشتعل ہونے کی وجہ صرف سیاسی اقدامات نہیں ہیں ۔ لیبیا میں اور اس سے پہلے عراق میں امریکہ کی فوجی کارروائی کے بعد، اس قسم کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ امریکہ شام کی صورت حال کو اور زیادہ خراب کر سکتا ہے، اگرچہ مسٹر اوباما نے محتاط رویہ اختیار کرنے پر زور دیا ہے ۔ انھوں نے کہا ہے’’ہمارے لیے شام میں فوجی اعتبار سے اور زیادہ الجھ جانا، بڑا سنگین اقدام ہو گا۔‘‘
اور مسٹر رومنی نے کہا ہے’’ہم وہاں فوجی اعتبار سے الجھنا نہیں چاہتے ۔ ہم فوجی تصادم میں شریک ہونا نہیں چاہتے۔‘‘
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دنیا میں امریکہ پر اعتماد مسلسل کم ہو رہا ہے ۔ اس سال کے شروع میں پیو ریسرچ سینٹر کے گلوبل ایٹیٹیوٹ پراجیکٹ کے تحت ہونے والے سروے سے پتا چلا کہ صرف 24 فیصد ترکوں نے اوباما پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔
پیو کی رپورٹ کے مطابق، مصر میں امریکہ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے ۔2012 کے سروے میں 19 فیصد لوگوں کی رائے امریکہ کے بارے میں اچھی تھی، جب کہ ایک سال قبل یہ تعداد 22 فیصد تھی۔
مصنف اور سیاسیات کے ماہر حسن نافا کہتے ہیں کہ امریکی انتخاب میں فتح کس کی ہوتی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔’’ میرے خیال میں عوامی نقطۂ نظر سے، کسی کو اس میں دلچسپی نہیں کہ امریکہ میں کیا ہو رہا ہے کیوں کہ اوباما آئیں یا رومنی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ دانشور اوباما کو رومنی پر ترجیح دیں گے کیوں کہ امریکی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال میں، اوباما زیادہ محتاط رہیں گے۔‘‘
2009ء میں جب مسٹر اوباما نے قاہرہ میں تقریر کے دوران، مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی طرف سے نئی ابتدا کا وعدہ کیا، تو توقعات بہت بڑھ گئی تھیں ۔ لیکن اس کے بعد لوگوں کو مایوسی ہوئی۔ قبطی مذہبی رہنما آگتھون شہاتا کہتے ہیں’’صدر اوباما کی پالیسیاں وہ نہیں تھیں جن کی توقع کی گئی تھی۔ مسٹر رومنی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کیوں کہ میں ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔‘‘
حسن نافا کو اوباما انتظامیہ کی جس با ت سے سب سے زیادہ مایوسی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ عرب اسرائیلی تنازعے میں، امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ وہ کہتے ہیں’’ہر کوئی جانتا ہے کہ امریکہ پر چاہے کسی کی حکومت ہو، اسرائیل کی مکمل حمایت جاری رہے گی ۔ جب تک امریکہ کے صدر مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی موجودہ پالیسی تبدیل نہیں کرتے، امریکہ دنیا کے اس حصے میں منفی کردار ادا کرتا رہے گا، اور کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘‘
دونوں امیدواروں نے امریکہ کے دیرینہ اتحادی کی مکمل حمایت کا عہد کیا ہے اور اسرائیل کی یہ مسلسل حمایت علاقے کے دوسرے ملکوں میں امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔